حدود کی بندشوں سے ہوش و حواس کھو بیٹھے
یا رب یہ ابتداء ہے تو کیا ہوگی انتہا میری
مرکزی حکومت کی جانب سے جس وقت سے پارلیمانی حلقہ جات کی نئی حد بندیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے اس وقت سے ہی جنوبی ہند کی ریاستوںکو فکر اور تشویش لاحق ہوگی ہے ۔ یہ اندیشے ظاہر کئے جانے لگے ہیں کہ آبادی کی بنیادوں پر حلقہ جات کی از سر نو حد بندی اگر کی جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں جنوبی ہند کی ریاستوں میں پارلیمانی نشستوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوگا اور پارلیمنٹ میں جنوبی ریاستوں کی جو نمائندی پہلے ہی کم ہے وہ مزید کم ہو جائے گی اور ملک کی پالیسیوں اور پارلیمنٹ پر شمالی اور وسطی ہندوستان کی ریاستوں کا غلبہ رہے گا ۔ اس کے علاوہ جس وقت سے مرکزی حکومت کی جانب سے ہندی کو جنوبی ریاستوں پر بھی مسلط کرنے کی کوششیں ہونے لگی ہیں اس وقت سے ہی جنوب کی تشویش میںاور بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ جنوبی ریاستوں میں اپنی الگ علاقائی زبان اور پہچان ہے ۔ جنوبی ریاستوں کا اپنا کلچر ہے جنوبی ریاستیں اپنی زبان اورکلچر کوفراموش کرنے تیار نہیںہوسکتیں اور اپنی زبان کو اپنی شناخت کے طور پر حفاظت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسے میںچیف منسٹر ٹاملناڈو ایم کے اسٹالن کی جانب سے جنوبی ہند کی ریاستوں کو متحد کرنے کی کوششیںشروع ہوئی تھیں۔ ایک اجلاس چینائی میں جنوبی ہند کے چیف منسٹروں کا منعقد ہوا جس میں تلنگانہ ‘ کرناٹک اور کیرالا کے چیف منسٹرنے شرکت کی ۔ ٹاملناڈو کے چیف منسٹر خود اس کے میزبان تھے اور آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو اجلاس میںشریک نہیں ہوئے ۔ چندرا بابو نائیڈوچونکہ مرکز میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کا حصہ ہیں اور آندھرا پردیش میں بی جے پی چندرا بابو نائیڈو زیر قیادت ریاستی حکومت کا حصہ ہے ایسے میں وہ اس اجلاس سے دور رہے تاہم جنوب کے ساتھ نا انصافی کے مسئلہ پر چندرا بابو نائیڈو کیلئے صورتحال مشکل بنتی دکھائی دے رہی ہے ۔ حالانکہ چندرا بابو نائیڈو بھی پارلیمانی حلقہ جات کی تعداد کے تعلق سے تشویش کا شکار ہیں لیکن وہ کھل کر اس کا اظہار نہیں کرسکتے کیونکہ وہ بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ وہ بالواسطہ طور پر آندھرا پردیش میںزیادہ بچے پیدا کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
جنوبی ریاستوں میں جو تشویش ہے وہ حق بجانب کہی جاسکتی ہے کیونکہ ملک میں آبادی پر کنٹرول کرنے کی جو مہم شروع ہوئی تھی اس کو سب سے زیادہ جنوبی ہند کی ریاستوںنے آگے بڑھایا تھا ۔ جنوبی ہند کے عوام نے بچوں کی پیدائش پر کنٹرول کیا اور آبادی پرقابو پانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ اس کے برخلاف شمالی ہند میںآبادی پر کوئی کنٹرول نہیں کیا گیا ۔ ایک ایک خاندان میںچاریا اس سے زائد بچے بھی ہیں۔ ایسے میں اگر آبادی کی بنیادوں پر حلقہ جات کی از سر نوحد بندی کی جاتی ہے تو لازمی طور پرجنوبی ریاستوں کی نمائندگی میں کمی آئے گی ۔ جنوب میں پارلیمانی حلقہ جات کی تعداد میں اتنااضافہ نہیں ہوگا جتنا ہونا چاہئے ۔ اس کے برخلاف شمالی ہند کی ریاستوں میں آبادی کی بنیاد پر نشستوں کی تعداد میںکافی اضافہ ہوگا ۔ ویسے بھی شمالی ہند میں پہلے ہی سے پارلیمانی نشستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ اترپردیش میں 80 نشستیں ہیں۔ اسی طرح بہار ‘ مہاراشٹرا ‘ مغربی بنگال اور دوسری ریاستوں میں بھی خاطر خواہ پارلیمانی نشستیں ہیں ۔ جنوب میں نشستوں کی تعداد کم ہے ۔ اب اگر آبادی کی بنیادوں پر حلقہ جات کی از سر نوحد بندی کی جاتی ہے تو بھی شمالی ہند کا ہی فائدہ ہوگا اور جنوبی ریاستوں کی نمائندگی گھٹ جائے گی ۔ ایسا تاثرعام ہے کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت خود چاہتے ہیں کہ پارلیمانی حلقہ جات کی حد بندی کے ذریعہ شمالی اور وسطی ہندوستان کے غلبہ کو مزید مضبوط کیا جائے کیونکہ بی جے پی شمال اور وسطی ہند میںہی مضبوط ہے ۔
اپنے اقتدار کو مستحکم اورمضبوط بنانے کیلئے بی جے پی آبادی کی بنیادوں پر حد بندی کی کوشش کر رہی ہے اور اسی وجہ سے جنوب کی ریاستیں تشویش کا شکار ہیں۔ یہ تشویش حق بجانب ہے اور اس پر مرکزی حکومت کوسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو کو بھی صورتحال کا احساس کرتے ہوئے اپنے موقف پر نظرثانی کرنے اور جنوبی ہند کے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے دوسرے چیف منسٹرس کی مہم کا حصہ بننے کی ضرورت ہے ۔ مرکزی حکومت جنوب سے نا انصافی کے سلسلہ کو روکے اور از سر نو حد بندی کے منصوبوںکو اتفاق رائے پیدا ہونے تک ملتوی کردے تو زیادہ بہتر ہوسکتاہے ۔