نئے ایرانی صدر‘ امیدیں اورچیالنجس

   

زد میں موجوں کی محفوظ کشتی رہی
پُرسکوں ہم کنارے پہ آتے رہے

ایران میں نئے صدر کا انتخاب عمل میں آچکا ہے ۔ سابق صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثہ میں موت کے نتیجہ میں یہ انتخاب ضرری ہوگیا تھا ۔ مسعود پزشکیان صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلہ میں کامیاب قرار دئے گئے ہیںاور انہوں نے پنے قریبی حریف کٹر پسند سمجھے جانے والے سعید جلیلی کو شکست دیتے ہوئے کامیابی درج کروائی ہے ۔ جہاں سعید جلیلی کو کٹر پسند قرار دیا جاتا تھا وہیں مسعود پزشکیان خود کو اصلاح پسند قرار دیتے ہیں اور وہ اندرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر بھی ایران کی پالیسیوں میں تبدیلی کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کیلئے آسان نہیںہوسکتا کیونکہ ایران میں مقتدر اعلی روحانی رہنما کی منظوری کسی بھی تبدیلی کیلئے ضروری ہوتی ہے تاہم مسعود پزشکیان اپنی عوامی تائید کے ذریعہ ملک میں اور بین الاقوامی سطح پر کچھ اصلاحات کی کوشش ضرور کریں گے ۔ ایران میں جو صدارتی انتخابات ہوئے ہیں ان میں 1979 کے بعد سے سب سے کم ووٹ ڈالے گئے تھے اور ان میں دوسرے مرحلے میں مسعود پزشکیان کی کامیابی ہوئی ہے ۔ مسعود پزشکیان ملک میںحجاب کے قانون میں نرمی پیدا کرنے کے منصوبے بھی رکھتے ہیں۔ حجاب کے معاملے میں ایران کو کٹر پسند موقف حاصل ہے ۔ وہاںحجاب کو لازمی قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کے خلاف مغرب کی ایماء پر کچھ مواقع پر احتجاج بھی کئے گئے ہیں اور سخت گیر موقف میں نرمی پیدا کرنے کیلئے مطالبات بھی ہوئے ہیں۔ ایسا کرنے والے سماجی جہد کار جلا وطنی کی زندگی بھی گذار رہے ہیں۔ مسعود پزشکیان کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ حجاب کے معاملے میںنرم موقف کے حمایتی ہیں۔ ایران کے معاشرہ میں اس طرح کی تبدیلی کو وہاں کے عوام اور مذہبی حلقے کس حد تک قبول کر پاتے ہیں یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد مسعود پزشکیان اس معاملے میںکس رفتار سے اور کس طرح سے آگے بڑھتے ہیں یہ بھی ابھی واضح نہیں ہوا ہے ۔ ان کا موقف کس حد تک تبدیل ہوتا ہے یا ہوتا بھی ہے یا نہیں یہ بھی ابھی کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس مسئلہ پر ایران میںکم از کم داخلی طور پر مباحث کا آغاز ضرور ہوسکتا ہے اور اس کو کچھ گوشوں کی تائیدو حمایت بھی مل سکتی ہے ۔
مسعود پزشکیان پیشہ کے اعتبارسے ڈاکٹر رہے ہیں اور وہ تجربہ کار سیاستدانوں میں شمارکئے جاتے ہیں۔ وہ مغربی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کو بہتر بنانے کے بھی حمایتی رہے ہیں۔ یہ بات ساری دنیا پر عیاں ہے کہ ایران اور مغربی ممالک کے مابین تعلقات ہمیشہ ہی کشیدہ اور تلخ رہے ہیں۔ ایران اورمغربی ممالک کے مابین شائد ہی کسی مسئلہ پر اتفاق رائے ہوا ہو۔مغربی ممالک جہاں ایران پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہوتے وہیں ایران بھی ان مغربی ممالک سے دوستی کو کچھ خاص اہمیت نہیں دیتا ۔ وہ بھی اپنے موقف پر اٹل رہتا ہے اور ان پر یقین کرنے اور کسی طرح کے اشتراک کیلئے رضامندی کا اظہار نہیںکرتا ہے ۔ اب جبکہ مسعود پزشکیان کو ایران کا صدر منتخب کرلیا گیا ہے تو دیکھنا یہ بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر کس طرح سے کام کرتے ہیں اور ایران کی خارجہ پالیسی کا کس طرح سے تعین کیا جاتا ہے ۔ علاقہ کے استحکام اور یہاں کے حالات میں ایران کی خارجہ پالیسی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ ایران کو علاقہ میں کچھ ممالک سے اختلافات کا بھی سامنا ہے اور کچھ ممالک اس سے سفارتی تعلقات بھی رکھتے ہیں تاہم خارجہ پالیسی کا حتمی تعین کرنے تک صورتحال پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس تعلق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ جہاں تک مغربی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کو بہتر بنانے اور ان میں استحکام پیدا کرنے کی بات ہے تو یہ بھی کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ ایران اور مغربی ممالک کے مابین جو اعتماد کا فقدان ہے اس کو راتوں رات دور نہیں کیا جاسکتا اور کئی بین الاقوامی امور ایسے ہیں جن پر ایران کے موقف میں تبدیلی پیدا کرنا بھی آسان نہیں ہوسکتا ۔ یہ صورتحال وقت طلب ضرور کہی جاسکتی ہے ۔
جہاں تک ایران کے داخلی حالات کا سوال ہے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایرانی عوام نے امریکہ اور اس کے حواریوں کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے ۔ تحدیدات کی مشکلات کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں لیکن امریکہ یا دوسرے مغربی ممالک کے دباؤ کو اب تک تسلیم نہیں کیا گیا ہے ۔ اس صورتحال میں مسعود پزشکیان اگر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں کس حد تک کامیاب ہونگے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ بحیثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں مسعود پزشکیان سے حالات میں تبدیلی کی امیدیں ہیں وہیں انہیں چیالنجس کا بھی سامنا ہے اوردیکھنا یہ ہے کہ وہ ان سے کس طرح نمٹ پاتے ہیں۔
اترپردیش ‘ ہجومی تشدد کا احیاء
اترپردیش میں ایک بار پھر سے ہجومی تشدد کا احیاء ہوچکا ہے ۔ کچھ ماہ سے جب ملک میں پارلیمانی انتخابات اور انتخابی مہم چل رہی تھی ہجومی تشدد کے واقعات تھم سے گئے تھے اور ملک کی کسی بھی ریاست میںایسے واقعات پیش نہیں آئے تھے ۔ تاہم اب جبکہ پارلیمانی انتخابات ختم ہوچکے ہیں۔ نئی حکومت تشکیل پا چکی ہے اور حکومت نے بھی حکومتی کام کاج سنبھال لیا ہے اترپردیش میں ہجومی تشدد بھی بحال ہوچکا ہے ۔ فیروز قریشی نامی شخص کو جلال آباد کے شاملی علاقہ میں پیٹ پیٹ کر قتل کردیا گیا ۔ ویسے بھی اترپردیش میں نظم و قانون کی صورتحال مسلسل گرتی جا رہی ہے اور آدتیہ ناتھ کی حکومت اس معاملے میں ناکام ہوگئی ہے تاہم ہجومی تشدد کے معاملے میں تو کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ہجومی تشدد میں بطور خاص مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے نہتے اور بے بس نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اور انتظامیہ ‘ نفاذ قانون کی ایجنسیاں اور حکومت اس معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہیں۔ ان کا رویہ اور خاموشی ہی ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہے ہیں جو ہجومی تشدد برپا کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت بھی اس معاملے میں چپ ہے تو آدتیہ ناتھ حکومت بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ دونوں ہی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کا ذمہ پورا کرے اور ہجومی تشددکے واقعات پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات کرے ۔ ہجومی تشدد میںملوث شر پسندوں کو سزائیںدلائی جائیں اور انہیںعبرتناک سزائیں دلائی جائیں ۔ اس کیلئے سیاسی حوصلہ ضروری ہے جس کا مودی اور یوگی حکومت میںفقدان دکھائی دیتا ہے ۔