نارادا ٹیپس ‘ صرف اپوزیشن نشانہ

   

Ferty9 Clinic

روح شکستہ دل ناکام
ہائے محبت کا انجام

مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے مکمل ہوتے ہی سی بی آئی اور دیگر مرکزی ایجنسیاں وہاں سرگرم ہوگئی ہیں اور ایک بار پھر سے ترنمول کانگریس کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ نارادا ٹیپس معاملے میں آج سی بی آئی نے اچانک ہی کارروائی کرتے ہوئے ترنمول کے چار قائدین کو گرفتار کرلیا ہے ان میں بنگال کے دو ریاستی وزراء فرہاد حکیم اور سبراتا مکرجی کے علاوہ ایک موجودہ رکن اسمبلی اور ایک سابق رکن اسمبلی بھی شامل ہیں۔ یہ کیس در اصل 2016 کا ہے جب ایک صحافی نے تحقیقات کرتے ہوئے اسٹنگ آپریشن کیا تھا اور یہ دعوی کیا تھا کہ ان وزراء اور کئی دوسرے قائدین نے سرکاری کاموں کی تکمیل کیلئے رشوت حاصل کی ہے ۔ اس معاملے میں مکل رائے اور شوبھیندو ادھیکاری جیسے قائدین بھی شامل ہیں جو ترنمول سے ترک تعلق کرتے ہوئے بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے ۔ نارادا نیوز کے بانی میتھیو سامیول نے یہ دعوی کیا تھا کہ انہوں نے شوبھیندو ادھیکاری کو ان کے دفتر میں رشوت دی ہے ۔ اس کے علاوہ مکل رائے کو بھی رشوت کی رقم دی گئی ہے ۔ ان کے اسٹنگ آپریشن والے ویڈیوز کا فارنسک معائنہ بھی کیا گیا اور اس کی درستگی ثابت ہوگئی ۔ اس کے باوجود سی بی آئی نے ان دونوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے اور صرف ترنمول کانگریس کے قائدین اور ریاستی وزراء کو ہی نشانہ بنایا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بنگال میں ترنمول اور اس کے قائدین کو نشانہ بنانے کا سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ نئی شدت سے شروع ہوگیا ہے ۔ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کی بوکھلاہٹ اس طرح کی کارروائیوں سے ظاہر ہونے لگی ہے ۔ بی جے پی نے ساری قوت صرف کرنے اور ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بنگال میں کامیابی حاصل نہیں کی اور اقتدار حاصل کرنے کا س کا خواب ’ خواب ہی رہ گیا ۔ جن قائدین پر بی جے پی نے رشوت اور بدعنوانیوں کے الزامات عائد کئے تھے ان کو ہی اپنی صفوں میں شامل کرتے ہوئے انتخابی میدان میں اتارا گیا ۔ اس کے باوجود اسے کوئی کامیابی نہیں ملی ۔ بی جے پی اب اپنی بوکھلاہٹ مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ ظاہر کر رہی ہے ۔
کچھ بدعنوانیاں ہوئی ہیں اور ان کا پردہ فاش ہوا ہے تو یقینی طور پر اس پر کارروائی ہونی چاہئے اور خاطیوں کے خلاف ان کے عہدہ اور مرتبہ کا خیال کئے بغیر مقدمے چلائے جانے چاہئیں لیکن اس معاملے میں کسی طرح کی جانبداری اور سیاسی سرپرستی کو خاطر میں نہیں لایا جانا چاہئے ۔ لیکن بی جے پی ممتابنرجی کے الفاظ میں اپوزیشن کے قائدین کیلئے ’’ واشنگ مشین ‘‘ بن گئی ہے ۔ جو قائدین اپوزیشن میں رہتے ہوئے راشی اور بدعنوان ہوتے ہیں وہ بی جے پی شمولیت اختیار کرتے ہی ہر طرح کے اسکامس اور غلط کاریوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ کئی قائدین ملک بھر میںایسے ہیں جو اپوزیشن جماعتوں میں رہتے ہوئے مختلف مقدمات اور تحقیقات کا سامنا کر رہے تھے اور ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ بعد میں جب یہ قائدین بی جے پی میں شامل ہوگئے تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔ ئکہا جاتا ہے کہ بی جے پی ان قائدین کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات درج کرتی ہے اور انہیں خوفزدہ کیا جاتا ہے ۔ جب یہ لوگ بی جے پی سے رابطے بناتے ہیں تو انہیں پارٹی صفوں میں شامل کرتے ہوئے کلین چٹ دیدی جاتی ہے ۔ یہ طریقہ کار مرکز میں حکومت اور اختیارات کے بیجا استعمال کا ہے ۔ مرکز کے اقتدار کو استعمال کرتے ہوئے ریاستوں میں حکومت بنانے کی کوششوں سے اب سارا ملک واقف ہوگیا ہے اور لوگ اس حکمت عملی کو سمجھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سلسلہ اب بھی پوری شدت سے جاری ہے ۔
آج جس طرح سے بنگال میں کارروائی کی گئی ہے وہ قابل مذمت ہے ۔ صرف اپوزیشن کے قائدین کو نشانہ بناتے ہوئے گرفتار کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا حالانکہ اسی مقدمہ میں بی جے پی کے قائدین بھی ملزم ہیں۔ ان کے خلاف بھی ثبوت موجود ہیں۔ ان کے تعلق سے بھی اس اسکام کا پردہ فاش کرنے والوں نے رشوت دینے کا دعوی کیا ہے ۔ مقدمہ درج رہنے اور ثبوت کی دستیابی کے باوجود ان قائدین کو گرفتار کرنے سے گریز کرنا اسی بات کا ثبوت ہے کہ مرکزی ایجنسیاں بھی دباو میں کام کر رہی ہیں اور حکومت کے اعلی حکام ان کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر رہے ہیں جس کی ہرگوشے سے مذمت کی جانی چاہئے ۔