اور پھر وہی ہوا جس کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ ناگپور میںاتوار کی شام اچانک ہی تشدد پھوٹ پڑا اور آگ زنی اور سنگباری کے واقعات پیش آئے ۔ کئی گاڑیوںکو نذر آتش کردیا گیا اور کئی افراد زخمی بھی ہوگئے ۔ ماحول کشیدہ ہوگیا اور سماج میں ایک ڈر و خوف کا ماحول پیدا ہوگیا ۔ یہ تشدد ایسا نہیںہے کہ اچانک کسی واقعہ کی وجہ سے پھوٹ پڑا ہو ۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کئی دنوں سے اس سلسلہ میں اشتعال انگیزی کرتے ہوئے ماحول کو بگاڑنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ اورنگ زیب کے مقبرہ پر تنازعہ پیدا کیا جا رہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے ۔ کسی زمانہ میں ہندوستان میں فلمیں ایک پیام دیتی ہوئی بنائی جاتی تھیں لیکن اب سیاسی ایجنڈہ کو فلموں کے ذریعہ پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کے ذریعہ سماج میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی بجائے نراج اور بے چینی کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے ۔ ویسے تواورنگ زیب کے تعلق سے پہلے ہی سے زہر اگلا جاتا رہا ہے ۔ ان کی کردار کشی کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیںتاہم حالیہ وقتوںمیں ایک فلم کے ذریعہ ماحول کو پراگندہ کیا گیا اور پھر عوام کے ذہنوں میں زہر انڈیل کر انہیں تشدد کیلئے اکسایا گیا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم آج ایسے مسائل پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو رہے ہیں جن کا آج کی دور میں کوئی ضرورت یا اہمیت نہیں ہے ۔ صرف سیاسی مقصد براری کیلئے ایسا کیا جا رہاہے ۔ حکومتیں اپنی ناکامیوںکی پردہ پوشی کرنے کیلئے عوام کو فرقہ وارانہ جنون کاش کار بنا رہی ہیں اور ناگپور میں پیش آنے والا تشدد بھی اسی کا ایک حصہ ہے ۔ اورنگ زیب کی مزار کو ڈھانے کے مطالبات کے تحت یہ تشدد برپا کیا گیا ہے ۔ وشوا ہندو پریشد کی جانب سے دن میں مظاہرہ کرتے ہوئے مزار کو اکھاڑ پھینکنے کی بات کہی گئی ۔ کئی قائدین کی جانب سے بیانات دئے جا رہے تھے کہ جو کوئی اورنگ زیب کی قبر کو ڈھا دے گا اسے بھاری انعام دیا جائیگا ۔بی جے پی کے ارکان اسمبلی اور وزراء تک اسی زبان میں بات کر رہے تھے جو انتہائی افسوسناک ہے ۔ ان ارکان اسمبلی اور وزراء کو ترقیاتی مسائل پر بات کرنی چاہئے لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے ہیں۔
فرقہ وارانہ جنون میں دوہرے معیارات اختیار کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اورنگ زیب کے مقبرہ کی حفاظت اور اس کی دیکھ بھال کا کام مرکزی حکومت کا ہے ۔ مرکزی حکومت کے تحت محکمہ آثار قدیمہ اورنگ زیب کے مقبرہ کی حفاظت کی ذمہ دار ہے ۔ مرکز میں بی جے پی کی ہی حکومت ہے ۔ مہاراشٹرا میں بھی بی جے پی حکومت کی سربراہ ہے ۔ قبر ڈھانے کی بات کرنے والے بھی بی جے پی کے قائدین اور اس کے وزراء ہی ہیں۔ کچھ ہندو فرقہ پرست تنظیمیں بھی اس کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ مرکزی حکومت سے نمائندگی کرنے کی بجائے سڑکوں پر اترکر فرقہ واریت کا جنون پھیلایا جا رہا ہے اور عوام کو مشتعل کرتے ہوئے تشدد برپا کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے ۔ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت ناگپور کے ماحول کو پراگندہ کیا گیا ہے ۔ ایسی کوششوں کی سرکوبی کی جانی چاہئے ۔ جو تشدد پھوٹ پڑا تھا وہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی مذمت کی جانی چاہئے تاہم اس سلسلہ میں کارروائی کرتے ہوئے ان عناصر کے خلاف بھی مقدمات درج ہونے چاہئیں جنہوں نے اشتعال انگیز بیانات دئے ہیں۔ عوام کو فرقہ وارانہ جنون کا شکار بنانے کیلئے نقد انعامات کا اعلان تک کیا گیا تھا ۔ مہاراشٹرا حکومت کو اس طرح کے دوہرے معیارات سے گریز کرتے ہوئے غیر جانبداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور سماج میں بدامنی اور بے چینی کی فضاء پیدا کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی ضرورت ہے ۔
یہ روایت بن گئی ہے کہ کسی نہ کسی مسئلہ پر ملک کے کسی نہ کسی کونے میں فرقہ وارانہ بدامنی پھیلائی جا رہی ہے اور حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں یا بالواسطہ طور پر ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ یہ انتہائی قابل مذمت صورتحال ہے اور حکومتوں کو اس طرح کی ذہنیت سے کام کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ حکومتوں کو ریاستوں اور ملک کی بہتری اور ترقی کیلئے کام کرنا چاہئے اور اسی پر ساری توجہ مرکوز کرنا چاہئے لیکن فرقہ وارانہ جنون پھیلایا جا رہا ہے ۔ مہاراشٹرا حکومت کو اس پر جواب دینا چاہئے کہ اس نے ماحول بگاڑنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی ۔ امن برقرار رکھنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے ۔