نظام جویلری کی نئی دہلی میں نمائش کی تیاریاں

,

   

پرنسس اسریٰ مستقل حیدرآباد میں رکھنے کی خواہشمند،12 سال بعد عوام کو مشاہدہ کا موقع

حیدرآباد۔/12جنوری، ( سیاست نیوز) نظام حیدرآباد کی قیمتی و نادر جویلری کی تقریباً 12 سال بعد نئی دہلی میں نمائش کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ نظام جویلری کلکشن کی 2001 اور پھر 2007 میں حیدرآباد کے سالار جنگ میوزیم میں نمائش کی گئی تھی۔ دنیا بھر میں اپنی نادر و نایاب جویلری کے اعتبار سے شہرت رکھنے والی نظام جویلری کی دہلی میں نمائش کی تاریخ کا ابھی تعین نہیں ہوا تاہم بتایا جاتا ہے کہ نمائش کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ نیشنل میوزیم کی جانب سے اس کا اہتمام کیا جائے گا۔ میوزیم کے کیوریٹر سنجیب کمار سنگھ نے کہا کہ ہندوستان میں جویلری زندگی کا ایک حصہ ہے ان میں نظام کلکشن آف جویلری کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ جویلری کی تاریخ میں نظام کا اپنا منفرد مقام ہے۔ ملک کی آزادی اور حیدرآباد اسٹیٹ کے انڈین یونین میں انضمام کے بعد آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں نے 54 ٹرسٹ قائم کئے تھے۔ یہ نادر و نایاب جواہرات حکومت ہند کی تحویل میں ہیں جو مخصوص ٹرسٹ کے اثاثہ جات تھے۔ مارچ 1951 میں نظام جویلری ٹرسٹ قائم کیا گیا جس نے 103 نوادرات کو حاصل کیا۔ 1952 میں نظام جویلری ٹرسٹ نے 144 مختلف آئیٹمس کو حاصل کیا۔ 1972 میں حکومت ہند اور نظام کے افراد خاندان کے درمیان اس بیش قیمت جویلری کی فروخت کے مسئلہ پر مذاکرات کا آغاز ہوا۔ 1995 میں حکومت ہند نے 217 کروڑ مالیتی انونٹری کا ایک حصہ حاصل کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان بیش قیمت جواہرات کی قیمت کا تعین کرنا مشکل ہے اس لئے کہ بعض جواہرات برصغیر میں اپنی نوعیت کے منفرد ہیں اور یہ دکن کی تاریخ کے خاموش گواہ ہیں۔ حکومت کے مطابق موجودہ کلکشن 173 آئیٹمس پر مشتمل ہے جو 2 ٹرسٹس کے تحت تھا۔ اگر نوادرات کے جوڑوں کو علحدہ کیا جائے تو ان کی تعداد 325 ہوگی جن میں 22 ایمبرالڈز کے سیٹس اور 185 کیاریٹ کا جیکب ہیرا شامل ہے۔ اس کلکشن میں نظام کی پگڑی، نکلیس، بالیاں، ایمبرالڈز، براسلیٹ، بٹنس، کفلنگس، گھڑیاں، چین، رنگس اور دیگر اشیاء شامل ہیں جو نظام حیدرآباد اُن کی بیگمات، بچوں اور ان کی نسل سے ہیں۔ مشہور مؤرخ دپتی ششی دھرن نے کہا کہ یہ کلکشن قومی اثاثہ ہے اور انہیں مستقل طور پر ہندوستانی عوام کے مشاہدہ کیلئے رکھا جانا چاہیئے۔ اسی دوران پرنسس اسریٰ جو نواب میر برکت علی خاں مکرم جاہ بہادر کی اہلیہ تھیں انہوں نے جویلری کو مستقل طور پر حیدرآباد میں رکھنے کی خواہش کی ہے۔ پرنسس اسریٰ نے جیویلس آف نظام دکن کا خزانہ کے عنوان سے کتاب میں لکھا کہ دنیا صرف دو تاج کے ہیروں سے واقف ہے جن میں ایک ایران اور دوسرا انگلینڈ کا ہے۔ نظام جویلری کو مستقل طور پر حیدرآباد میں رکھا جانا چاہیئے۔ یہ کتاب جویلری کی مورخ اوشا بالا کرشنن اور آرکیوز کے ماہر دپتی ششی دھرن کی 8 سالہ ریسرچ پر مشتمل ہے۔ کرشنن نے بتایا کہ وہ جب نظام کی جویلری کا کیٹلاگ تیار کررہی تھیں انہیں ایک ٹرسٹ کے معاہدہ کا پتہ چلا جس میں جویلری کے دو سیٹس اقبال بیگم اور گوہر بیگم کے تھے جو نواب میر عثمان علی خاں کی بیگمات میں شامل تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایمرالڈ کی تعویذ سے اقبال بیگم کو تصویر میں باآسانی شناخت کرپائیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جیکب ڈائمنڈ نواب میر محبوب علی خاں نے حاصل کیا تھا جو 184.75 قیراط پر مشتمل ہے۔ جسٹس اے این سنگھ ریٹائرڈ کو نظام جویلری کے معاملہ میں ایمپائر مقرر کیا گیا اور اس جویلری کی مالیت 27 جولائی 1991 کو 225 کروڑ 37 لاکھ 33 ہزار 951 طئے کی گئی لیکن سپریم کورٹ نے بعض تکنیکی وجوہات پر مالیت کو کم کردیا۔ ایک انٹرنیشنل آکشن ہاوز نے جویلری کی مالیت 1192 کروڑ 32 لاکھ مقرر کی ہے۔