نفرت انگیز تقاریر ‘ عدالتی ہدایت

   

ہندوستان میں نفرت انگیز تقاریر اب ایک عام روایت بن گئی ہے ۔ کسی کو بھی نشانہ بنانے اور کسی کو بھی نیچا دکھانے کیلئے ایسے حربے اختیار کئے جا رہے ہیں جن کی ماضی میںکوئی نظیر نہیں ملتی ۔ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اور مذہبی بھید بھاؤ کی بنیاد پر اس طرح کی تقاریر کے ذریعہ سماج میں نفرت گھولنے کا کام کیا جا رہا ہے اور اس کے اثرات اب دکھائی بھی دینے لگے ہیں۔ اسی زہر افشانی کے نتیجہ میں ملک کے نوجوانوں کی ذہنیت پراگندہ ہو رہی ہے ۔ نوجوان اپنے مستقبل اور ملک کی تعمیر و ترقی پر توجہ دینے کی بجائے دوسروں کے لباس ‘ غذا اور حلال و حرام پر توجہ دے رہے ہیں۔ انہیں حکومت کی کارکردگی یا اس کے وعدوں کی تکمیل سے کوئی سروکار نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ صرف ہندو ۔ مسلم کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہونے لگے ہیں اور یہ صورتحال ہمارے ملک کیلئے انتہائی افسوسناک اور تشویشناک بھی ہے ۔ کثرت میں وحدت کی ہندوستان کی جو مثال ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ تاہم اب ہندوستان کی اس روایت کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے ۔ اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقاریر کے ذریعہ سماج کا اور ملک کا ماحول متاثر کیا جا رہا ہے ۔ اس سے نقص امن کے اندیشے لاحق ہو رہے ہیں۔ بعض مواقع پر تو اسی طرح کی تقاریر کے نتیجہ میں فساد جیسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی ۔ ملک و سماج کے ذمہ دار اور بڑے طبقات کے مابین اعتماد کی فضاء ختم ہونے لگی ہے ۔ لوگ ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کی بجائے شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔ کہیں کسی کا لباس پریشانی کا باعث بن رہا ہے تو کہیں کسی کی غذا سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کہیں حجاب کو مسئلہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں حلال کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے ۔ یہ سارا کچھ نوجوانوں کے ذہنوں میں انڈیلے جانے والے زہر کا نتیجہ ہے ۔ اس کیلئے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقاریر ہی ذمہ دار ہے ۔ حکومت کا جہاں تک سوال ہے تو اس معاملے میں حکومت نے آنکھیں موندی ہوئی ہیں۔ بارہا توجہ دہانی کے باوجود ان تقاریر کو روکنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ۔ عدالتوں سے بارہا حکومتوں کو اس معاملے میںہدایات جاری کی گئیںلیکن بے اثر رہیں۔
اب ملک کی سپریم کورٹ نے بھی مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقاریر ناقابل قبول ہیں اور ان کو روکا جانا چاہئے ۔ سماج میں نفرت کو ہوا دینے کے مقصد سے جو کوئی اس طرح کی اشتعال انگیزیاں کرتا ہے اور نفرت پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے ان کے خلاف سخت ترین کارروائیوں کی ضرورت ہے ۔ اگر چند ایک معاملات میں حکومت اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی جانب سے موثر اور جامع کارروائی کسی دباؤ کے بغیر کی جاتی ہے تو پھر دوسروں کیلئے عبرت کا معاملہ ہوسکتا ہے اور دوسروں کو اس طرح کی حرکتوں سے روکا جاسکتا ہے ۔ ان کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے ۔ حکومتوں اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی جانب سے اس طرح کی تقاریر اور بیان بازیوں کے معاملے میں جانبدارانہ رول کی وجہ سے ہی فرقہ پرستوں اور شرپسند عناصر کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں۔ وہ خود کو ملنے والی کھلی چھوٹ کا بیجا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ملک کے امن کے درہم برہم ہونے کے خطرات کو بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا ۔ اس حقیقت کو سبھی کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ شرپھیلانے والے عناصر نہ ملک کے مفاد میں کام کر رہے ہیں اور نہ قوم کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ نفرت اور اشتعال کی سیاست کچھ دیر کیلئے انہیں سیاسی فائدہ تو پہونچا سکتی ہے لیکن اس سے ملک کے مفادات متاثر ہوتے ہیں ۔ سیاسی فائدہ کی خاطر ملک کے مفادات کو نقصان پہونچانے یا ان پر کسی طرح کے سمجھوتے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
ملک کی مختلف عدالتوں نے کئی مواقع پر نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر کے خلاف اقدامات کی ہدایت دی ہے ۔ اس کے باوجود اب تک کوئی جامع کارروائی کسی بھی مسئلے میں نہیں کی گئی ہے ۔ شر پسندوں اور اشتعال پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کیلئے ضروری ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے ۔ ان کی مذموم حرکت کی مذمت کی جائے ۔ اس کا کوئی جواز پیش کرنے کی کوشش نہ کی جائے ۔ ایسے عناصر کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزائیں دلائی جائیں۔ ان کے خلاف ہر ممکن قانونی کارروائی کی جائے ۔ تبھی جا کر اس لعنت سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور یہ چھٹکارہ پانا بہت ضروری ہے۔