نفرت انگیز تقاریر پر عدالتی احکام

   

ہندوستان میں حالیہ عرصہ میں نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر ایک سنگین مسئلہ بن گئے ہیں۔ ذمہ دار حکام کی جانب سے اس طرح کی تقاریر پر کارروائی کرنے سے پہلی تہی اور غفلت برتے جانے کا نتیجہ ہے کہ ہر گوشہ اس طرح کی تقاریر میں ملوث ہو رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ مذہبی تقاریب کے نام پر سماج کے دو بڑے اور اہم طبقات کے مابین دوریوں کو اور نفرتوں کو ہوا دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ ایک فرقہ کو دوسرے فرقہ کی نسل کشی کیلئے ترغیب دی جا رہی ہے ۔ گھروں میں ہتھیار رکھنے کیلئے اکسایا جا رہا ہے ۔ قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور اپنے ادنی سے سیاسی مفادات و مقاصد کی تکمیل کی جا رہی ہے ۔ جو لوگ اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں ان کے خلاف ذمہ دار اور مجاز حکام کی جانب سے بروقت اور سخت کارروائی نہ کئے جانے کے نتیجہ میں ان کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ ملک کی عدالتوں نے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقاریر پر کارروائی کیلئے ایک سے زائد بار ہدایت دی ہے ۔ 2022 میں سپریم کورٹ نے دہلی ‘ اترپردیش اور اترکھنڈ پولیس کو ہدایت دی تھی کہ اشتعال انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف از خود مقدمات درج کئے جائیں اور ایسا نہ کرنے پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی ۔ ملک کی سپریم کورٹ نے آج اپنے سابقہ حکمنامہ کو توسیع دیتے ہوئے اس کو ملک کی تمام ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کو بھی ایسا ہی کرنے کی ہدایت دی ہے اور کہا کہ جو ریاستیں اور مرکزی زیر انتظام علاقے ایسا نہیں کریں گے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی ۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اشتعال انگیز تقاریر ایک سنگین مسئلہ ہیں اور ان کے نتیجہ میں ملک کے سکیولر کردار کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ عدالت کے یہ احکام اور عدالت کے یہ ریمارکس قابل خیر مقدم ہیں اور ان پر ملک کی تمام ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کو من و عن عمل کرتے ہوئے ملک میں پھیلنے والے نفرت انگیز تقاریر کے ناسور کو ختم کرنے آگے آنا چاہئے ۔ ملک کے سکیولر کردار کو بچانے کیلئے اس طرح کی کارروائیوں کی اشد ضرورت ہے ۔
اکثر دیکھا جا رہا ہے دھرم سنسد کے نام پر نفرت اور نراج پھیلائی جا رہی ہے ۔ ہندو برادری کو مسلمانوں کے قتل عام کیلئے اکسایا جا رہا ہے ۔ انہیں گھروں میں ہتھیار رکھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ۔ ملک کی پارلیمنٹ کے رکن رہتے بھی بعض ارکان اس طرح کی بیان بازیاں کر رہے ہیں۔ سیاسی فائدہ کیلئے تقاریر میں جس طرح کی بیان استعمال کی جا رہی ہے وہ ہندوستانی کلچر اور یہاں کی سیاسی روایات کا کبھی حصہ نہیں رہی تھی ۔ سیاسی قائدین جس وقت سے ملک میں مذہبی امور کا استحصال کرنے کے قابل بن گئے ہیں اس وقت سے ماحول انتہائی پراگندہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ملک کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ پرامن بقائے باہم کے اصولوں پر زندگی گذارتے تھے ۔ ایک دوسرے کے تہواروں اور عیدوں میں حصہ لیا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کے سکھ دکھ کے ساتھی ہوا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کی پریشانیوں میں شریک ہوا کرتے تھے اور خوشیاں بھی مشترکہ طور پر منایا کرتے ۔ تاہم سیاسی جماعتوں اور قائدین نے ملک کے ماحول کو اس قدر پراگندہ کردیا ہے کہ اب لوگ پڑوسیوں پر تک بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں رہ گئے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے تعلق سے شبہات کا شکار ہیں۔ ایک دوسرے کو ان کے مذہب کی بنیاد پر پرکھنے اور جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ وہ ایک دوسرے کے مذہب کے تعلق سے کچھ نہیں جانتے ۔ یہ ماحول ملک کی دیرینہ اور گنگا جمنی تہذیب والی روایات کو ختم کرنے کا باعث بنا ہے اور سیاسی جماعتیں اس کا استحصال کر رہی ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ واضح کردیا ہے کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس سے ملک کا سکیولر کردار متاثر ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں ملک کی تمام ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کی پولیس کی یہ ذمہ داری اور اس کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے ۔ انہیں قانون کے مطابق سزائیں دلائی جائیں۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی نہ برتی جائے اور نہ کسی طرح کے سیاسی اثر کو قبول کیا جائے ۔ اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور غیر جانبداری کو ملک کے قانون کے مطابق پورا کیا جائے بصورت دیگر انہیں عدالت کی تحقیر اور توہین کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔