نفرت پھیلانے آرٹ کا استعمال

   

رام پنیانی
جب کوئی کیرالہ کے بارے میں کچھ سنتا ہے یا کہیں کیرالہ جیسی خوبصورت ریاست کا ذکر کیا جاتا ہے تب جو چیزیں ہمارے ذہنوں میں عود کر آتی ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس ریاست کے باشندے امن و امان سے رہتے ہیں، ان میں غیر معمولی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے، وہاں پڑھے لکھے یعنی تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد ملک کی دوسری ریاستوں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے ( ریاست کیرالہ میں خواندگی کی شرح 97 فیصد بتائی جاتی ہے) بتایا جاتا ہے کہ ریاست کیرالہ میں ناخواندگی کا خاتمہ ہوچکا ہے، جنوبی ہند کی اس ریاست میں صحت، تعلیم اور خوشحالی سے متعلق اشاریئے غیر معمولی اور مثالی ہیں اور کیرالہ کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس نے کویڈ۔19 کی عالمی وباء سے بہت ہی اچھے انداز میں نمٹا ہے ( جبکہ سارا ہندوستان اچھی طرح جانتا ہے کہ مودی حکومت نے کورونا وائرس کی وباء سے کیسے نمٹا، کس طرح اچانک لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا اور کیسے بے شمار افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ ایک تو وائرس کی زد میں آکر اور دوسرے نریندر مودی کے نافذ کردہ لاک ڈاؤن کی زد میں آکرموت کا شکار ہوگئے ) جہاں تک کیرالہ کا سوال ہے اس کے بارے میں جو تاریخ ہے ہمیں بتاتی ہے کہ وہاں 52عیسویں میں سینٹ سباسٹین کی آمد کے ساتھ عیسائیت داخل ہوئی جبکہ عرب تاجرین ساتویں صدی میں دین اسلام کو کیرالہ میں لے آئے۔ اس طرح عیسائیت اور دین اسلام کی ہندوستان میں آمد کیرالہ سے ہوئی۔ تمام تاریخی حقائق کے متضاد ’’ دی کیرالہ اسٹوری ‘‘ جیسی فلم کے ٹپزر اور پرومو میں کیرالہ کو ایک ایسی ریاست کے طور پر دکھایا گیا ہے جہاں غیر مسلم بالخصوص خواتین اپنا مذہب تبدیل کرکے دامن اسلام میں پناہ لے رہی ہیں اور کیرالہ کو اس فلم میں ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کیا گیا جہاں ہندو خواتین ( لڑکیوں ) کو بڑی تعداد میں اسلامک اسٹیٹ ( آئی ایس آئی ایس ) میں ڈھکیلا جارہا ہے۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ فلم ’’ کشمیر فائیلس‘‘ کے خطوط پر بنائی گئی ہے۔ کیرالہ کے باشندوں میں نفرت و عداوت اور عدم اعتمادی کو بڑھاوا دینے کیلئے تیار کی گئی ہے۔ آدھا سچ اور فرضی کہانیاں یا فسانہ فلم میں پیش کرتے ہوئے ان کے حقیقت پر مبنی ہونے کے دعوے کئے گئے جبکہ ریاست کی جو حقیقی صورتحال ہے اس پر جھوٹ کا پردہ ڈال دیا گیا۔ سچائی کو لوگوں کی نظروں سے چھپایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ گوا میں منعقد شدنی 53ویں انٹر نیشنل فلم فیسٹول کی جیوری کے سربراہ نے اُسے ’’ پروپگنڈہ فلم ‘‘ قراردیا۔ NADAV LAPID نے ’ دی کشمیر فائیلس ‘ کو نہ صرف پروپگنڈہ فلم قرار دیا بلکہ اسے فحش فلم قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔LAPID کے اس حقیقت پسندانہ بیان کو لیکر ہندوستان میں زبردست برہمی ظاہر کی گئی اور خود ان کے ملک اسرائیل میں بھی بعض گوشوں نے برہمی کا اظہار کیا۔ لیاپڈ کے ساتھ بے شمار غیر جانبدار دانشوروں، فلمسازوں نے بھی فلم ’’ دی کشمیر فائیلس ‘‘ کو حقیقت سے بعید اور جھوٹ کا پلندہ قراردیا۔ بہرحال آپ کو بتادیں کہ اس فلم کا ٹپزر 2 نومبر 2022 کو جاری کیا گیا اور 27 اپریل کو ٹریلر کی اجرائی عمل میں آئی جس کے ساتھ ہی فکر مند شہریوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ یہ فلم بھی جھوٹ پر مبنی ایک پروپگنڈہ فلم ہے جس میں آدھا سچ پیش کرکے حقیقت کو دفن کردیا گیا ۔ دوسری طرف’’ دی کیرالہ اسٹوری ‘‘ میں انتہائی بچکانہ بلکہ جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ 32 ہزار ہندو لڑکیوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا اور اسلامک اسٹیٹ کا حصہ بن گئی۔ ڈائرکٹر، پروڈیوسر نے یہ جو تعداد بتائی ہے وہ انتہائی مشتبہ ہے اس بارے میں وہ کسی بھی قسم کا ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ انہیں اپنے دعویٰ کو سچ ثابت کرنے کیلئے اس کا ثبوت فراہم کرنا تھا۔
آپ کو بتادیں کہ منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالائس (IDSA) میں عادل رشید کا ایک مقالہ شائع ہوا جس کا عنوان کچھ یوں تھا’’ کیوں چند ہندوستانیوں نے آئی ایس آئی ایس میں شمولیت اختیار کی ‘‘ اس تحقیقی مقالہ میں عادل رشید نے لکھا کہ ساری دنیا سے یعنی دنیا کے کونے کونے سے آئی ایس آئی ایس میں بھرتی ہوئے مرد و خواتین کی جملہ تعداد خود 40 ہزار ہے جبکہ سب سے کم ہندوستانی باشندوں نے شام اور افغانستان میں آئی ایس آئی ایس میں بھرتی کیلئے اپنا ملک چھوڑا، اور تقریباً151 افراد کو آئی ایس آئی ایس سے تعلق کے الزام یا پھر شبہ میں گرفتار کیا گیا۔ اس ریاڈیکل تنظیم کے لئے دنیا بھر سے کی گئی بھرتیوں سے متعلق ورلڈ پاپولیشن ریویو کے ڈیٹا سے اس ات کا پتہ چلتا ہے کہ آئی ایس آئی ایس میں بڑے پیمانے پر جن ملکوں سے بھرتیاں عمل میں آئیں ان میں عراق، افغانستان، روس، تیونس، اردن، سعودی عرب، ترکی، فرانس اور دوسرے ممالک شامل ہیں۔ کیرالا کے سابق چیف منسٹر اومن چنڈی نے 2006 تا 2012 کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس میں بتایا گیا کہ2006 تا 2012 کے دوران 7713 افراد ( مرد و خواتین ) نے اسلام قبول کیا۔ اس کے برعکس 2803 مرد و خواتین نے ہندواِزم قبول کیا۔ مسٹر اومن چنڈی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے پاس مذکورہ مدت کے دوران کتنے مرد و خواتین نے عیسائیت قبول کیا اس کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔2009-12 میں 2667 نوجوان لڑکیوں نے دامن اسلام میں پناہ لی، ان میں سے 2195 ہندو اور 492 عیسائی تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان لڑکیوں پر مذہب تبدیل کرنے کا دباؤ نہیں ڈالا گیا بلکہ ان لڑکیوں نے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اسلام قبول کیا۔ اومن چنڈی کے خیال میں کیرالہ میں لو جہاد کی مہم ریاست کیرالہ میں موجود فرقہ پرست سیاست کے متاثرہ قدامت پسند ومایوس عناصر نے شروع کی، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ تخریبی سیاست اور جذباتی موضوعات و مسائل اُٹھائے تاکہ معاشرہ میں اپنی موجودگی کا احساس دلاسکیں۔ اومن چنڈی کا یہ بھی کہنا تھا ’’ ہم اپنی ریاست میں زبردستی تبدیلی مذہب کے واقعات کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم چلانے کی اجازت دیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس کمشنر کی جانب سے لوجہاد کے الزامات پر کی گئی تحقیقات میں یہ بات غلط ثابت ہوگئی کہ ہندو اور عیسائی لڑکیوں کو مسلم لڑکے اپنے پیار میں پھنساکر ان کا مذہب تبدیل کروارہے ہیں لیکن بی جے پی جان بوجھ کر اس مسئلہ سے جو کسی بھی طرح مسئلہ نہیں ہے‘ چمٹی ہوئی ہے اور جس کے نتیجہ میں ملک کی 11 ریاستوں میں لوجہاد کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے۔ مہاراشٹرا نے حال ہی میں سکل ہندو سماج کی شروع کردہ ایک بہت بڑی مہم کا مشاہدہ کیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ لوجہاد پروپگنڈہ دراصل ہندو معاشرہ کیلئے حقیقی خطرہ ہے۔ اس سکل سماج نے مہاراشٹرا کے دیہی علاقوں میں ریالیاں منظم کی جو آج بی جے پی کی زیر اقتدار ریاست میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف نفرت کا ذریعہ بن رہی ہیں۔