نفرت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے

   

نفرت کا سُکھ ہی پیارا ہوگیا
ہو بھلے وہ دوسرے کا دل توڑ کر
کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کی کامیابی کے بعد رد عمل میں کہا تھا کہ نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولی گئی ہے ۔ راہول گاندھی نے اپنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران بھی محبت کو عام کرنے کا دعوی کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک بھر میں نفرت کو ختم کرنے اور سماج کے مختلف طبقات کے مابین ایک دوسرے سے محبت و انسیت پیدا کرنے کیلئے یاترا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی یاترا کے سیاسی مقاصد ہونے کی تردید کرتے ہوئے سماج میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے پر ہی زور دیا تھا ۔ کرناٹک کے نتائج کے بعد جہاں کانگریس کے حوصلے بلند ہوئے ہیں وہیں بی جے پی کے حوصلے پست ہوتے دکھائی دئے ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ہند کی ریاستوں میں بی جے پی کا صفایا ہوگیا ہے ۔ آئندہ چند ماہ میں مزید پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کانگریس نے ان کیلئے بھی اپنی تیاریاں تیز کردی ہیں۔ کرناٹک کے فارمولے کو دوسری ریاستوں میں دوہرا نے کی بات کی جا رہی ہے ۔ تاہم ایک پہلو یہ بھی رہا ہے کہ کرناٹک کے بعد ایک بار پھر سے ملک بھر میں نفرت کا ماحول گرم کرنے کی تیاریاں تیز ہوگئی ہیں۔ کئی گوشے اس ماحول کو خراب کرنے کیلئے سرگرم ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے طور پر سماج میں منافرت پھیلانے میں کوئی کسر باقی رکھنا نہیں چاہتے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف فلمیں تیار کرنے کا سلسلہ سا شروع کردیا گیا ہے ۔ دی کشمیر فائیلس سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا جس کو دی کیرالا اسٹوری سے طوالت دی گئی ۔ اب 72 حوریں اور اجمیر 92 جیسی پروپگنڈہ فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ ان کے ذریعہ بھی مسلمانوں کے خلاف سماج میں نفرت پیدا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ میڈیا اور سوشیل میڈیا میں مسلسل نفرت کی مہم کے اثرات اس حد تک ہوگئے ہیں کہ کرکٹرس بھی اب اس کا اثر قبول کرنے اور فرقہ وارانہ منافرت والے ٹوئیٹس کرنے لگے ہیں اور سوشیل میڈیا پر پوسٹ کرنے لگے ہیں۔ اس کی مثال گجرات ٹائٹنز کے بولر یش دیال کی انسٹا اسٹوری سے ملتی ہے جس میں کرکٹر نے لو جہاد کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی ۔
یش دیال نے حالانکہ عوامی برہمی اور غیض و غضب کو دیکھتے ہوئے اپنی انسٹا اسٹوری پر معذرت خواہی کرلی ہے اور اس کو وائرل نہ کرنے کی اپیل بھی کی ہے تاہم اس اسٹوری کے پوسٹ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ سماج کے کس کس طبقہ تک کے ذہنوں کو نفرت کا شکار بنادیا گیا ہے اور کس کس طرح کے لوگ اس کا اثر قبول کرتے ہوئے خود اپنی ذہنیت آشکار کرنے لگے ہیں۔ یہ لگاتار نفرت پیدا کرنے کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اب صرف چند مٹھی بھر جنونی نوجوان اور منفی سوچ رکھنے والے گوشے ہی نہیں بلکہ کرکٹرس بھی اس کا شکار ہونے لگے ہیں۔ دی کیرالا اسٹوری جیسی فلم کو کرناٹک انتخابی نتائج نے پس منظر میں ڈال دیا تھا ۔ اس کا چرچہ کرناٹک انتخابات کے بعد ختم ہوگیا حالانکہ انتخابی مہم کے دوران خود وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کا تذکرہ کیا تھا ۔ انتخابی نتائج کے بعد یہ صورتحال بدل گئی ہے ۔ تاہم نفرت پھیلانے والے گوشے ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں اور وہ نئی فلمیں بنانے اور پروپگنڈہ کرنے کو تیار ہوچکے ہیں۔ آئندہ چند ماہ میں ہونے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے بعد پھر عام انتخابات کا وقت قریب آجائیگا ۔ ایسے میں فرقہ پرست عناصر سیاسی مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس طرح کی فلمیں تیار کرنے لگے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ سارے ملک میں نفرت کا ماحول گرم کردیا جائے تاکہ انتخابات کے دوران عوام کی توجہ ان کو درپیش بنیادی مسائل سے ہٹائی جاسکے اور انتخابات صرف مذہبی منافر ت کی بنیاد پر لڑا جائے ۔
ہندوستان ایک وسیع و عریض جمہوری ملک ہے ۔ ہر چند ماہ میں کسی نہ کسی ریاست میں انتخابات کا عمل چلتا رہتا ہے ۔ ایسے میں اگر فرقہ وارانہ منافرت کے ذریعہ ہی انتخابات جیتنے کی کوشش کی جائے تویہ منفی سوچ کا نتیجہ ہوگی اور اس سے انتخابی عمل کی اہمیت متاثر ہونے لگ جائے گی ۔ اس سے جمہوری عمل کھوکھلا ہوتا چلا جائیگا ۔ تمام کے تئیں احساس ذمہ داری رکھنے والے تمام گوشوں کو اس تعلق سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔ ان پر لگام کسی جانی چاہئے ۔ عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔