نفرت کی لہر اور حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی

   

پی چدمبرم

حجاب، حلال اور اذان تنازعات سے کرناٹک لرز کر رہ گیا ہے۔ ان تنازعات کو انتہائی مہارت کیساتھ اور بہت ہی احتیاط سے ایسے تیار کیا گیا جس سے ریاست کرناٹک کے لوگ دو کیمپوں ہندو اور مسلمان میں تقسیم ہوجائیں۔ واضح رہے کہ اس جنوبی ریاست میں آئندہ سال یعنی 2023ء کو اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس کیلئے بہت ہی محتاط طریقہ سے مذہبی خطوط پر عوام کو تقسیم کرنے کی ایک مہم تیار کی گئی۔ مذکورہ تنازعات اسی مہم کا ایک حصہ ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آخر حجاب کیا ہے۔ جب کوئی لڑکی یا خاتون اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو وہ اپنا سر ڈھانکتی ہے، اسی لباس کو ’’حجاب‘‘ کہا جاتا ہے۔ شمالی ہند میں ہندو خواتین، سکھ خواتین عیسائی راہبائیں اور چند دیگر (بشمول سکھ مرد) بھی اپنے سر ڈھانکے رکھتے ہیں۔ اب حلال کی طرف چلتے ہیں۔ ’’حلال گوشت‘‘ وہ گوشت ہے جو شرعی لحاظ سے جانوروں یا مرغیوں کو ذبح کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حلال گوشت کے حصول کیلئے جانوروں کو کس طرح ذبح کیا جاتا ہے؟جانوروں کو حلال طریقہ سے ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں جانوروں یا مرغ کی شہ رگ اور نرخرہ اچھی طرح کاٹے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں جانور ؍ مرغ میں موجود سارا خون خارج ہوجاتا ہے۔ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی غذائی اشیاء کی تیاری یا پکوان کئے قواعد ہیں۔ یہودیت میں کوشر فوڈ کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ ہندوؤں کی بعض ذیلی ذاتوں میں پکوان کے ان کے اپنے قواعد ہیں۔
جہاں تک اذان کا سوال ہے، یہ مسلمانوں کو غاروں کی ادائیگی کیلئے مساجد بلانے کیلئے دن میں پانچ وقت دی جاتی ہے اور اذانیں اکثر لاؤڈ اسپیکر پر دی جاتی ہیں۔ مسلمان اذان دیتے ہیں۔ ہندو اور عیسائی اپنی عبادت گاہوں یعنی مندروں اور گرجا گھروں میں گھنٹے بجاتے ہیں۔ ہندو مذہبی تہواروں میں اکثر مذہبی کتابوں سے اشلوک وغیرہ پڑھی جاتی ہیں اور مذہبی موسیقی بھجن وغیرہ گائے بجائے جاتے ہیں، اس کیلئے لاؤڈ اسپیکر کا بطور خاص استعمال کیا جاتا ہے۔
صدیوں سے ملک میں
پرامن بقائے باہم کی روایت
ہندوستان میں حجاب، حلال گوشت اور اذان کوئی نئی بات نہیں ہے یا کوئی مذہبی عمل نہیں ہیں اور اس وقت سے ہی ہے جب دین اسلام کی ہندوستان میں آمد ہوئی۔ہمارے ملک میں صدیوں سے لوگ اپنے اپنے مذاہب پر مذہبی روایات پر رسم و رواج پر چل رہے ہیں۔ مذہبی تعلیمات پر عمل کررہے ہیں۔ کرناٹک (قدیم ریاست میسور) کے عوام نے صدیوں قبل ان روایات یا مذہبی تعلیمات پر عمل کو قبول کیا ہے اور کبھی بھی کسی نے دوسروں کے مذہبی معاملات پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دوسرے مذاہب و عقیدوں کے ماننے والے صدیوں سے یہاں پرامن بقائے باہم کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ماحول میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ بی جے پی نے ریاست کرناٹک میں چند میعاد کیلئے حکومت کی کبھی اتحادیوں کے ساتھ حکومت کی تو کبھی تنہا حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ حالیہ برسوں کے دوران بی جے پی نے دوسروں جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو منحرف کرواتے ہوئے حکومت کی ہے۔ بی جے پی کی ان کوششوں کو ’’آپریشن لوٹس‘‘ کہا گیا۔ آپ کو بتادوں کہ آئندہ سال 2023ء میں بی جے پی کو انتخابات کا سامنا ہے۔ بی جے پی حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں رہی جس کے نتیجہ میں آج وہاں بی جے پی کا موقف ٹھیک نہیں ہے۔ ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں نے ارکان اسمبلی کے انحراف کو ہوا دینے والے آپریشن لوٹس کے خلاف چوکسی اختیار کرلی ہے۔ جس سے پریشان ہوکر بی جے پی نے سوچ لیا ہے کہ اب تمام تدابیر ناکام ہونے والی ہیں۔ ایسا کچھ نیا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے رائے دہندے بہ آسانی مذہبی خطوط پر تقسیم ہوجائیں اور ہندو اکثریتی ووٹ بناء کسی محنت و پریشانی کے اس کی جھولی میں گرجائیں۔ بی جے پی میں ایسے ذہنوں کی کمی نہیں جو بڑی ہوشیاری کے ساتھ برائی کو فروغ دے کر اپنا سیاسی اُلو سیدھا کرلیتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر اپنی حکمت عملی طئے کرتے ہیں جس سے ان کے مفادات اور عزائم کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ غذا، لباس اور عبادتوں سے متعلق کرناٹک میں جو تنازعات چھیڑے گئے ہیں۔ ان ہی فسادی ذہنوں کی کارستانی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کرناٹک کے اسکولوں اور کالجس میں اچانک کس طرح حجاب کا مسئلہ چھیڑا گیا اور یہ مسئلہ کسی اور نے نہیں بلکہ حکومت نے چھیڑا اور پھر اسے عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ کرناٹک ہائیکورٹ کی وسیع تر بینچ نے یہ سوال اُٹھایا کہ آیا حجاب، اسلام کی بنیادی پریکٹس ہے یا نہیں۔ بہرحال کرناٹک ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے اور امید ہے کہ عدالت عظمی میں حقیقی مسئلہ پر خصوصی توجہ دی جائے گی اور اسے حل کیا جائے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی قائدین اور ان کے حامی نفرت انگیز، بیانات جاری کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کررہے ہیں۔ ان لوگوں کی مسلسل اشتعال انگیزی کے باوجود افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کرناٹک کی ممتاز شخصیتوں نے اس طرح کے بیانات کی مذمت نہیں کی۔ صرف مورخ رام چندر گوہا اور صنعت کار کرن مجمدار شاہ نے نفرت کے ان سوداگروں کے خلاف آواز اٹھائی جس کے نتیجہ میں مذہبی خطوط پر عوام کو تقسیم کرنے والے عناصر دونوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نفرت پر مبنی تقاریر نے خاص طور پر اترپردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں اپنی تمام حدیں پار کردیں۔ اس معاملے میں ہار ہار جرم کا ارتکاب کرنے والا یتی نرسنگھانند سے جوداسنا دیوی مندر کا پجاری ہے۔ پچھلے سال اس نے ہردوار کے دھرم سنسد میں مسلم خواتین کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کئے تھے جس کی پاداش ہیں، اسے گرفتار کرکے ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ 3 اپریل کو اس نے پھر دہلی میں منعقدہ ہندو پنچایت سے خطاب کرتے ہوئے زہر اگلا اس نے ہندوؤں کو مشورہ دیا کہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت کیلئے ہتھیار اُٹھالیں اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ یہ پیش قیاسی بھی کردی کہ مسلمان 2029ء یا 2034ء یا پھر 2039ء میں ملک کا وزیراعظم بنے گا، اس معاملے میں پولیس نے صرف ایف آئی آر درج کیا، لیکن اس کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی۔ مذہبی منافرت کا ایک اور بدترین واقعہ مہنت بجرنگ منی داس کا ہے جو ایک خودساختہ مذہبی رہنما ہے۔ اس نے مسلم خواتین کے اغوا اور برسر عام ان کا ریب کرنے کی دھمکیاں دیں۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور بڑی مشکل سے 11 دن بعد اسے گرفتار کیا گیا حالانکہ خواتین کے قومی کمیشن نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تشدد عدم برداشت کا مظاہرہ اور نفرت پر مبنی بیانات ایسے وقت دیئے گئے جبکہ شری رام چندرجی کا یوم پیدائش منایا جارہا تھا اور اس طرح کی حرکتوں میں ملوث عناصر کو آر ایس ایس اور بی جے پی کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ بہرحال ملک میں جاری اس طوفان بدتمیزی پر اعلیٰ حکام کی خاموشی صرف حکمرانی کی غلطی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے۔