نواز شریف کی پاکستان واپسی

   

بہت ہے قید کی میعاد سرفروشوں کی
فضا قفس کی جو راس آگئی تو کیا ہوگا
انتہائی غیر یقینی سیاسی کیفیات والے ملک پاکستان میں سابق وزیر اعظم نواز شریف چار سال کی خود معلنہ جلا وطنی کو ختم کرتے ہوئے وطن واپس ہوگئے ہیں۔ وہ لندن سے براہ دوبئی پاکستان پہونچے اور انہوں نے لاہور میں اپنے حامیوں سے خطاب بھی کیا ۔ نواز شریف کی واپسی پاکستان کے داخلی سیاسی حالات کیلئے اہمیت کی حامل کہی جاسکتی ہے ۔ عمران خان کی حکومت میں ان کے خلاف مقدمات درج تھے اور وہ مقدمات سے بچنے نت نئے بہانوں کے ساتھ وطن واپسی سے گریز کر رہے تھے ۔ اب جبکہ عمران خان کی حکومت زوال کا شکار ہوگئی ہے اور آئندہ انتخابات کیلئے ایک عبوری حکومت قائم کردی گئی ہے ایسے میں نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کو آگے بڑھانے کیلئے پاکستان واپس آچکے ہیں۔ حالیہ کچھ دہوں میں دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی حالات انتہائی غیر یقینی ہوتے ہیں۔ یہ کہا نہیں جاسکتا کہ آج وزیر اعظم رہنے والا کل کہاں ہوگا اور آج کا قیدی کل کا وزیر اعظم بھی ہوسکتا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس نے پاکستان اور اس کے عوام کے مستقبل کو غیر یقینی بنادیا ہے ۔ پاکستان میں سیاستدانوں کی مفاد پرستی اور ذاتی اقتدار کی خواہش نے حالات انتہائی ناگفتہ بہ بنادئے ہیں۔ ملک اور ملک کے عوام کے تئیں کسی بھی سنجیدگی یا بہتر جذبہ دکھائی نہیں دیتا ۔ ہر کوئی اپنے اقتدار کی فکر میں سیاسی جماعتیں بدلنے اور اپنے نظریات کو خیرباد کہتے ہوئے نئے نظریہ کے ساتھ ہونے میں بھی کوئی عار محسوسن نہیںکرتا ۔پاکستان کے تقریبا ہر سیاسی لیڈر کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی فکر ہمیشہ لاحق رہتی ہے ۔ اس کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے کوئی بھی گریز نہیں کرتا ۔ گذشتہ کئی دہوں سے جاری اس صورتحال نے ملک اور ملک کے عوام کے مستقبل کو ایک طرح سے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ آج پاکستان اپنے وجود کی لڑائی لڑنے پر مجبور ہوگیا ہے اور اس میں بھی سیاستدان اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ آج پاکستان کی معیشت اس حال کو پہونچ چکی ہے کہ ملک دیوالیہ کے قریب پہونچ چکا ہے یا دیوالیہ ہوہی چکا ہے ۔ ان حالات میں نواز شریف کی واپسی ملک کے حالات کو بہتر بناسکتی ہے یا نواز شریف کا سیاسی مستقبل سنورجاتا ہے یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔
نواز شریف نے وطن واپسی پر جذباتی رد عمل کا اظہار کیا ہے اور یہ بات فطری بھی کہی جاسکتی ہے تاہم اس موقع پر انہوں نے اپنی سیاسی جانشین کا بھی اعلان کردیا ۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر واضح کردیا ہے کہ مریم نواز اب ان کی جانشین ہونگی ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان کو ایک مستحکم اور مضبوط قیادت اور حکومت کی ضرورت ہے ۔ ملک کے حالات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ معیشت کو سدھارنے کی ضرورت ہے ۔ پڑوسی ممالک اور خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور مخالف ہند پروپگنڈہ او ر سرگرمیوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے باہمی اعتماد کی فضاء قائم کرنے کی ضرورت ہے ایسے میں اگر وہ اپنے سیاسی جانشین کا فیصلہ کرتے نظر آتے ہیں تو ملک اور ملک کے عوام کے تئیں ان کی سنجیدگی پر سوال ضرور پیدا ہونگے اور ہو بھی رہے ہیں۔ پاکستان آج جس دوراہے پر پہونچ چکا ہے وہ خود اس کے اپنے وجود کیلئے مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ سیاست اور فوج کی رسہ کشی نے ملک کے حالات کو ابتر بنانے میں رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے اور آج اگر پاکستان کو کہیں سے قرض نہیں ملتا ہے تو اس کا گذارہ مشکل ہوجائیگا ۔ ایسے میں پاکستان میں صرف نواز شریف یا ان کے افراد خاندان ہی کو نہیں بلکہ ملک کے سارے سیاسی قائدین کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک مشترکہ اور جامع منصوبہ تیار کرتے ہوئے سبھی کو سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھنے اور کام کرنے سے اتفاق کرنے کی ضرورت ہے ۔
نواز شریف چار سال کی خود معلنہ جلا وطنی کے بعد وطن واپس تو ہوچکے ہیں لیکن ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ملک کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ان کے پاس کیا منصوبے ہیں۔ وہ کوئی پروگرام تیار کرکے آئے ہیں یا پھر حالات کے ساتھ بہتے ہوئے سیاست کرنا چاہتے ہیں یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ جب تک ایک جامع منصوبہ اور عوام وتمام سیاسی قائدین کو اعتماد میں لیتے ہوئے کام نہیں کیا جاتا اس وقت تک پاکستان کے حالات بہتر ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ یہ سب کچھ فضول ہی ہوگا ۔ آئندہ چند ماہ پاکستان اور پاکستانی عوام کے مستقبل کیلئے اہمیت کے حامل ہونگے اور سیاسی قائدین کی حکمت عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہوگی ۔