نیا ہندوستان ایسے نہیں بنتا

   

راج دیپ سردیسائی
ایک تکلیف دہ اور ہنگامہ خیز سال 2020 کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ نیا سال یعنی 2021 نئی امیدوں، نئی امنگوں، نئے عزائم و حوصلوں کا سال ہوگا اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے نیتا یعنی سیاسی قائدین بنگال اسمبلی انتخابات سے قبل ہی رابندر ناتھ ٹائیگور کو بازیاب کرنے لگے ہیں۔ نوبل لاریٹ رابندر ناتھ ٹیگور نے ایک نظم ’’ وین دا مائنڈ اس وتھاوٹ فیئر‘‘ پیش کرتے ہوئے دراصل ہندوستان کے لئے دعا کی تھی اور ان کی وہی نظم امید ہے کہ 2021 کے لئے ایک دعا بن جائے گی اور سال 2021 میں ہندوستان اس عظیم شاعر یعنی نوبل لاریٹ رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم سے نیا عزم و حوصلہ پائے گا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی نظم کے ذریعہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کو یہ پیام دینے کی کوشش کی تھی کہ جس ذہن میں خوف نہیں ہوتا اور جس کا سر بلند ہوتا ہے یعنی کسی کے سامنے نہیں جھکتا تو دنیا اس کی قدر کرتی ہے اور انسان کی شناخت اس کے اپنے ملک سے ہوتی ہے اور ملک اسی وقت ترقی کرتا ہے جب ذات پات، علاقہ واریت یا مذہبی امتیاز کی دیواریں کھڑی نہیں ہوتیں۔ اپنی اُس نظم کے ذریعہ رابندر ناتھ ٹیگور نے یہ بھی بتایا تھا کہ جہاں حقیقی سیکولرازم ہوتا ہے وہ اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ ریاست کی کوئی اتھاریٹی کسی بھی مذہب کے خلاف تعصب و امتیاز فروغ نہیں دے سکتی جہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مساویانہ احترام پر مبنی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ تمام اقدار ہمارے دستوری سیکولرازم کی بنیاد ہے اور ایسا ہونا لازمی ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی اس نظم کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جس طرح اپنے ملک کی سچائی، دیانتداری، ہندوستانیوں کے عزم و حوصلے، ان کی دلیری، ذات پات، علاقہ اور مذہب سے ہٹ کر سیکولر ازم پر بھروسہ کے متعلق جو کچھ اظہار خیال کیا ہے اس کے بعد ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ملک رابندر ناتھ ٹیگور کی خواہشات کے مطابق امن و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جہاں بین مذاہب شادیوں کو لو جہاد قرار دیتے ہوئے بدنام نہ کیا جائے، جہاں بالغ جوڑوں کو اپنی محبت کا ثبوت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا مقامی پولیس آفیسر کے سامنے دینا نہ پڑے۔ جیسا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست میں ہو رہا ہے اور پیار کرنے والے بین مذاہب جوڑوں کو جدا کرتے ہوئے انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلا جا رہا ہے جہاں بیف کھانا ایک جرم نہ ہو جبکہ ایک ریاست میں اس پر پابندی ہے تو دوسری ریاست میں اسے اہم غذائی حصہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی نظم کے ذریعہ شاید یہ بھی پیام دیا ہے کہ میرا ملک ایسا ہو جہاں احتجاجی کسانوں پر آبی توپوں سے حملہ نہ کیا جائے یا شدید سردی میں انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں جہاں کسی کسان کو صرف اس لئے شکوک و شبہات کی نظروں سے نہ دیکھا جائے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی آواز سنی جائے۔ جہاں اپنے سر پر ٹربن باندھنے والے ایک سکھ کو خالصستانی نہیں بلکہ ایک کسان کی حیثیت سے دیکھا جائے جہاں اہم قوانین دستور کے مطابق منظور کئے جائیں نہ کہ کسی کی ہدایات یا اشاروں پر ان قوانین کی منظوری عمل میں آئے، جہاں اہم حصہ دار مقننہ میں قانون کی منظوری سے قبل ہونے والے مباحث کا حصہ بنیں جہاں ناراضگی کو جرم قرار نہ دیا جائے، جہاں احتجاجی طلبہ، ماہرین تعلیم اور حقوق انسانی کے جہد کاروں کو قوم دشمن قرار دیتے ہوئے اور ان پر ناقابل ضمانت انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت الزامات عائد کرکے جیلوں میں نہ پھینکا جائے۔ جہاں کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے فروغ دیا گیا ٹیکہ سب سے پہلے ان لوگوں کے لئے قابل دستیاب رہے جنہیں اس وائرس سے سب سے زیادہ خطرہ اور جوکھم لاحق ہے نہ ان لوگوں کے لئے جو اپنے آستینوں پر وی وی آئی پی کے بیاچس لگائے رہتے ہیں۔ جہاں کسی بھی کمیونٹی کو صرف اور صرف تعصب کے باعث کورونا پھیلانے والے قرار نہ دیا جائے، جہاں نظام صحت عامہ اس انداز میں تیار کیا جائے جس سے تمام ہندوستانیوں کے لئے معیاری علاج یقینی بنے، جہاں خانگی نگہداشت صحت کے ادارے فائدہ اور سودا کے درمیان فرق کرنا سیکھیں جہاں سائنس کو توہم پرستی پر برتری حاصل ہو اور طبی نگہداشت کو اہمیت دی جائے۔ جہاں صاف ستھری ہوا ایک قومی ترجیح ہو۔ جہاں عالمی وباء کو اس انداز میں نہیں لیا جانا چاہئے جس سے ہم شہروں میں رہنے والے غریبوں کی حالت زار کو نظرانداز کردیں یا انہیں بھول جائیں۔ جہاں قومی لاک ڈاون کے باعث کسی کو بھی شہری علاقوں میں واقع گندہ بستیوں میں اپنے ٹھکانوں سے اپنے گاؤں روانہ ہونے کے لئے ہزاروں کیلو میٹر پیدل سفر کرنا نہ پڑے۔ جہاں غریب اور مراعات سے محروم طبقات کو ظالمانہ انداز میں مرنے کے لئے چھوڑا نہ جائے۔ جہاں ایسا ماحول نہ ہوں جس میں کہ متوسط طبقہ اور اشرافیہ یا متمول طبقہ اپنی کالونیوں اور بلند و بالا اپارٹمنٹس میں بڑے آرام سے زندگی گذاریں اور غریب حالات سے مقابلہ کرتے رہیں۔ جہاں ایک پی ایم کیئرس فنڈ حکومت ہند کا اپنا اور زیر کنٹرول ادارہ نہیں ہوسکتا یہی نہیں بلکہ یہ فنڈ قانون حق معلومات کے تحت بھی نہیں آتا کیونکہ وہ خانگی فنڈس حاصل کرتا ہے۔

ٹیکس دہندگان کی حیثیت سے یہ جانن ہمارا حق ہے کہ ہماری رقومات کہاں اور کیسے خرچ کی جارہی ہیں۔ کہاں الیکشن فنڈنگ بھی بہت ہی شفاف بنائی گئی ہے۔ جہاں انفارمیشن کمیشن اپنی آنکھیں بند نہ کرلیں اور یہ کہے کہ اس میں کوئی عوامی مفاد نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ انفارمیشن کمیشن الیکٹرول بانڈس اسکیم کے تحت سیاسی عطیہ دہندگان کی تفصیلات کے انکشاف سے گریز کرے۔ جہاں ہم پارلیمنٹ کی تزئین نو یا تجدید کاری کے لئے کثیر رقومات خرچ کریں ہمیں سب سے پہلے پارلیمانی جمہوریت کے جذبہ کو بحال کرنا ہوگا جہاں اقتدار کی ساخت میں جمہوریت غیر مرکوزیت کی حوصلہ افزائی کرے جہاں سیاسی جماعتیں مورثی یا خاندانی سیاست تک محدود ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ سیاسی قائدین اور ان کی جماعتیں صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر قائم ہوں۔ جہاں جمہوریت صرف انتخابات جیتنے کا نام نہ ہو بلکہ انتخابات میں مقابلہ کرنے والے تمام امیدوراوں کے لئے مساوی مواقع کا مرکز ہوں۔ جہاں ارکان پارلیمنٹ یا ارکان اسمبلی کو خریدنے کے لئے دولت کی طاقت کا استعمال نہ کیا جاتا ہو تاکہ حکومتوں کو زوال سے دوچار کیا جائے اور عوامی رائے کو تہہ و تیغ کردیا جائے جہاں نفاذ قانون کی ایجنسیاں سیاسی مخالفین کے خلاف ڈرانے دھمکانے کا ہتھیار نہ بنیں۔

جہاں آزاد مارکٹ یا آزاد بازار کا وعدہ مارکٹ کی اجارہ داریوں پر آکر ختم نہ ہو جہاں لائسنس پرمٹ راج سیاسی تائید و حمایت پر مبنی حکمرانی کا ذریعہ نہ بن جائے جہاں غیر معمولی لیکن غیر منظم شعبہ ترقی کرے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے والی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جہاں ترقی کی شرح نمو سے متعلق اعداد و شمار میں ہیرا پھیری نہ کی جائے اور سرخیوں کو حقائق پر ترجیح نہ دی جائے۔ جہاں ججس اس بات کو تسلیم کریں کہ شخصی آزادی چنندہ نہیں ہوسکتی ایک 80 سالہ سماجی جہد کار کو جیل میں اسٹرا حاصل کرنے کے لئے کئی ہفتوں تک جدوجہد کرنی نہ پڑے جبکہ بااثر شخصیتوں کو قانونی کارروائی اور گرفتاری سے فوری طور پر راحت دی جاتی ہے۔ جہاں ججس مابعد سبکدوشی تمام فوائد کے حصول سے گریزکریں۔ جہاں عدلیہ کو تنقید کانشانہ بنانے کو فوجداری جرم یا توہین عدالت کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے جبکہ حبس بیجا میں جن لوگوں کو رکھا گیا ہے ان کی درخواستوں کی فوری طور پر یا ہنگامی بنیادوں پر سماعت کی جائے۔ جہاں ایک اداکار کی خودکشی قومی سطح کا ڈرامہ نہ بن جائے۔ اس کے برعکس ایک کسان کی خودکشی کو صرف اعداد و شمار سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ جہاں نیوز میڈیا ایک واج ڈاگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں ٹی وی نیٹ ورکس کا فرض لوگوں کو آگاہ کرنا ہو نہ کہ اکسانا۔ جہاں خبروں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو آوازوں کو نہیں۔ جہاں احساس کو سنسنی خیزی پر برتری حاصل ہو۔ جہاں ٹی آر پی (ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹس کی بجائے ٹیلی ویژن رسپکٹ پوائنٹس) کا مقام حاصل کرے۔ جہاں فرضی خبریں اور نفرت انگیز تقاریر پھیلانے کی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اجازت نہ ملے۔ بہرحال نئے سال میں نئے خوشحال ہندوستان کی امید رکھنی چاہئے۔