وزیراعظم مودی کے کھوکھلے دعوے

   

پی چدمبرم
عالمی سطح پر رہنماؤں کی جو تقاریر یا خطابات ہوتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ اہمیت امریکی کانگریس سے امریکی صدر کے خطاب کو دی جاتی ہے، اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ امریکی پالیسیاں دوسرے ممالک پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
اسی طرح 15 اگست کو ہمارے ملک کے جشن یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم کا دہلی کے تاریخی لال قلعہ پر سالانہ خطاب ہوتا ہے، ہر خطاب کو زیادہ دلچسپی سے سنا اور دیکھا نہیں جاتا اور نہ ہی اس میں زیادہ دلچسپی لی جاتی ہے لیکن اس مرتبہ وزیراعظم کے خطاب کے بارے میں جاننے سے متعلق کچھ لوگوں میں دلچسپی ضرور دیکھی گئی۔ ویسے بھی یوم آزادی کا جشن اس طرح رنگ برنگا نہیں ہوتا جس طرح یوم جمہوریہ کی پریڈ ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ یوم جشن آزادی کے موقع پر وزیراعظم کی تقریر میں لوگ کچھ نہ کچھ دلچسپی لیتے ہیں۔ مارچ پاسٹ اور فلائی پاسٹ کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ماضی میں وزرائے اعظم کی تقاریر کو بڑی دلچسپی سے سنا جاتا تھا ۔اگر لال قلعہ کی فصیلوں سے کئے جانے والے وزیراعظم کے خطاب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے دور سے ہی جشن یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے وزیراعظم کا خطاب بہت اہمیت رکھتا ہے۔ میں اس خطاب کو ’’اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ خطاب کہہ سکتا ہوں، یہ پنڈت جواہر لال نہرو کی واحد روایت ہے جس سے نریندر مودی نے انحراف نہیں کیا، یا اسے پس پشت نہیں ڈالا۔
جہاں تک وزیراعظم نریندر مودی کا سوال ہے، 15 اگست کو انہوں نے جو خطاب کیا، وہ پہلے کے خطابات کی نقل ہے کیونکہ جشن آزادی میں ان کا خطاب انتخابی ریالیوں میں کئے گئے خطاب سے مختلف نہیں، ہاں اس خطاب میں ان کے خطاب یا تقاریر کا جو ٹریڈ مارک یا خاصا ہوا کرتا ہے (اپوزیشن پر سخت تنقید مثال کے طور پر ’’دی دی او دی‘‘) اس خطاب میں نہیں دیکھا گیا۔
اب اگر ہم جشن آزادی کے موقع پر مودی کے خطاب کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں اپنی حکومت کے کارناموں کا ذکر کیا۔ ان کارناموں کے حوالے دیئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا کے چند اداروں نے وزیراعظم کی جانب سے اپنی تقریر میں کئے گئے وعدوں کی حقیقت جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ جیسا کہ (امریکہ میں نوجوان صحافیوں کی ایک ٹیم نے کیا) وہاں پروفیسر راجیو گوڑا کی قیادت میں نوجوانوں پر مشتمل ایک ٹیم نے مودی کے خطاب میں کئے گئے دعوؤں کی حقیقت جاننے کی کوشش کی اور اس ٹیم نے اپنی کوشش کے دوران مودی کے دعوؤں کے بارے میں جو حقائق منظر عام پر لائے ہیں، وہ آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔
کورونا وباء پر قابو پانے کا دعویٰ: وزیراعظم کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ہندوستان نے کورونا وائرس کی عالمی وباء سے لڑائی کی، اس وباء کا سامنا کرنے کیلئے ہمیں کئی ایک چیلنجس درپیش تھے اور ہم نے ہر محاذ پر کامیابی حاصل کی اور وباء کے دوران ہم خود مکتفی بن گئے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان میں دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ اندازی مہم پر عمل آوری جاری ہے۔
نریندر مودی کے مذکورہ دعوؤں کی حقیقت منظر عام پر لاتے ہوئے پروفیسر راجیو گوڑا کی زیرقیادت ٹیم کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کورونا وائرس وباء سے جو لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے، ان کے تعلق سے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ ملک میں حملہ 4,33,622 کورونا اموات ہوئیں اور عالمی سطح پر ہلاکتوں کے لحاظ سے ہمارا ملک تیسرے مقام پر کھڑا ہے، لیکن دنیا بھر میں جن اداروں نے آزادانہ جائزہ کا اہتمام کیا، ان جائزوں میں حکومت ہند کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کو نہ صرف غلط بتایا گیا بلکہ اسے بے نقاب کردیا گیا۔ ماہرین نے اتفاق رائے سے ہندوستان میں ہوئی کورونا اموات کے بارے میں بتایا کہ سرکاری اعداد و شمار سے کم از کم 10 گنا زیادہ اموات ہوئی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی سطح پر کورونا سے سب سے زیادہ اموات ہندوستان میں واقع ہوئیں۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران ہم نے بڑی مایوسی کی حالت میں عالمی برادری سے امداد طلب کی اور امداد قبول بھی کی۔ آکسیجن کنسنٹریٹرس، وینٹی لیٹرس، ٹسٹنگ کٹس وغیرہ کے ضمن میں ہمیں 40 ملکوں سے امداد حاصل ہوئی۔ جہاں تک ٹیکوں کا سوال ہے، ابتداء میں حکومت نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ ہندوستان، ٹیکوں کی تیاری میں نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ خودمکتفی بھی ہوگیا اور وہ دوسرے ملکوں بالخصوص غریب ملکوں کو ٹیکے فراہم کرے گا، لیکن مودی حکومت نے ’’ویکسین دوستی‘‘ کے نام پر دوست اور غریب ملکوں کو فراہم کئے جانے والے ٹیکوں کی درآمدات بند کردیں (جس کے نتیجہ میں چھوٹے ملکوں کو بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا)۔ پھر ہم نے ٹیکوں کیلئے روس اور امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ سب سے پہلے تو ہمیں ٹیکوں کی تیاری میں خود مکتفی یا خودانحصار ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کرنا چاہئے۔
شکر ہے کہ حکومت نے روسی ساختہ اسپیوٹنک ٹیکہ قبول کیا۔ ان کے تیار کردہ ٹیکوں کی فراہمی کیلئے دوسرے ملکوں سے بات چیت شروع کی، اس کے باوجود ناکافی سربراہی ،ٹیکہ اندازی پروگرام میں مسلسل رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ جیسا کہ میں نے تحریر کیا ہے کہ ہندوستان میں تاحال 44,01,02,169 افراد نے ایک ٹیکہ لیا اور 12,63,86,264 افراد نے دو ٹیکے لئے ہیں، اگرچہ حکومت نے ڈسمبر 2021ء کے اواخر تک (95-100 کروڑ) لوگوں کو مکمل طور پر ٹیکہ دینے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے لیکن ٹیکہ اندازی کی موجودہ رفتار سے لگتا ہے کہ حکومت اپنے مقررہ ہدف سے بھٹک گئی ہے۔ مودی جی نے 15 اگست کے خطاب میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت نے 80 کروڑ سے زیادہ شہریوں کو مفت اناج فراہم کیا ہے۔ اس بارے میں ساری دنیا میں مباحث ہورہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان میں ایسے 27 کروڑ خاندان ہیں (ایک خاندان اوسطاً 5 ارکان پر مشتمل ہے) اگر 80 کروڑ لوگوں نے فی کس 5 کیلوگرام اناج کے حساب سے اناج حاصل کیا تو اس کا اظہار ایف سی آئی اسٹاک میں کمی سے ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایف سی آئی سے سالانہ حاصل کئے جانے والے اناج (چاول اور گیہوں) میں 2012-13ء میں 66 ملین ٹن کی گراوٹ آئی 2018-19ء میں یہ گراوٹ 62 ملین ٹن رہی اور 2019-20ء میں 54 ملین ٹن گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ کورونا وباء کے سال 2020-21ء کے دوران اس میں 87 ملین ٹن کا اسٹاک دیکھا گیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام مستحق افراد کو مفت اناج حاصل نہ ہوا۔
عظیم پریم جی یونیورسٹی کی جانب سے ایک سروے میں کیا گیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ جن گھر والوں سے بات کی گئی، ان میں سے صرف 27% نے بتایا کہ وہ 5 کلوگرام مفت اناج اسکیم (غریب کلیان انا یوجنا) کے تمام فوائد حاصل کررہے ہیں۔ اس کے برعکس بھوک سے متعلق عالمی انڈکس میں جملہ 107 ملکوں میں ہندوستان 94 میں مقام پر ہے۔ اس طرح مودی نے بیت الخلاؤں کی تعمیر سے متعلق جو دعویٰ کیا، وہ بھی کھوکھلا ہے۔ دوسری جانب مودی نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ آنے والے برسوں میں ملک کئی آکسیجن پلانٹس کا حامل ہوگا۔ اس ضمن میں یہ بتا دوں کہ 18 اپریل 2021ء کو وزارت صحت نے ٹوئٹ کیا کہ 163 آکسیجن پلانٹس جن کی تنصیب کی تجویز پیش کی گئی تھی (بعد میں مجوزہ پلانٹس کی تعداد میں مزید اضافہ کیا گیا) ان میں سے صرف 33 پلانٹس نصب کئے گئے ۔اسکرال نے تو یہاں تک کہا ہے کہ صرف 5 آکسیجن پلانٹس کام کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے عصری بنیادی سہولتوں کیلئے 100 لاکھ کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیا۔ شاید مودی جی یہ بھول گئے ہوں گے کہ انہوں نے ایسا ہی اعلان 15 اگست 2019ء اور 15 اگست 2020ء کو بھی کیا تھا۔ وہ 15 اگست 2022ء کو بھی ایسا ہی اعلان کرسکتے ہیں۔