وزیراعظم کی تقریر

   

شامِ غم کی ظلمتیں ہیں اور صحرائے حیات
دیدۂ بیدار کو انجم فشاں کرتے چلو
وزیراعظم کی تقریر
حکمرانی کا تقاضہ پورا کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ وزیراعظم مودی کے لیے صرف یہ ذمہ داری محسوس کی جارہی ہے کہ وقفہ وقفہ سے عوام کو دلاسہ دیں اور لاک ڈاؤن کی پابندی کرنے کی ہدایت دیں ۔ ان کے حسن سلوک کا عملی مظاہرہ دیکھ کر عوام کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ اس طرح کے لاک ڈاؤن کے ذریعہ حکومت اپنے فرائض کے ایک حصہ کو روبہ عمل لارہی ہے ۔ راحت اور بہبودی اقدامات ان کے دائرہ میں ہی نہیں آتے ہیں ۔ حکمراں جب عوام کو معیشت سے بچانے کے متبادل راستے تلاش کرنے کے بجائے سماج میں نفرت پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ دے کر صرف ٹی وی پر نمودار ہونے کو ہی اپنا فرض سمجھ لے تو پھر اس طرح کے لاک ڈاؤن چاہے وہ 14 اپریل تک ہو یا اس میں اب توسیع کر کے 3 مئی تک کی جائے ۔ عوام خاص کر غریبوں کے نصیب میں جو دکھ آیا ہے وہ دور نہیں ہوگا ۔ لوگوں تک اناج پہونچانے کا ڈھنڈورہ پیٹنے کے باوجود جب کسی شہر میں ماں اپنے پانچ بچوں کو فاقہ کشی کا شکار ہوتا دیکھ کر انہیں دریائے گنگا میں پھینک دیتی ہے تو یہ واقعہ حکومت کے لیے باعث شرم نہیں ہے ۔ کورونا وائرس نے اس ملک کے عوام کے سامنے حکمراں سیاستدانوں کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس نازک گھڑی میں بھی عوام کو ہندو مسلم کی نفرت میں ڈھکیل کر اپنی سیاست کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان کی لگائی گئی چنگاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں نفرت کرنے والے کس طرح ٹوٹ پڑ رہے ہیں ۔ اس مہلک وبائی مرض کا علاج ابھی ایجاد نہیں ہوا ہے لیکن اس کو روکنے کی کوشش کرنے کا واحد طریقہ لاک ڈاؤن ہے تو پھر وزیراعظم معیشت کو بہتر بنانے یا اس کو استحکام دینے کا کیا منصوبہ بنایا ہے ۔ یہ بات وزارت عظمیٰ کے ذمہ سے کوسوں دور نظر آرہی ہے ۔ وزیراعظم تو اپنے 14 اپریل کے خطاب میں ہندوستانی عوام سے بہت کچھ کہنے کی ضرورت تھی ۔ عوام پر بڑھتی آفت کو روکنے کی تدابیر اور حکومت کے انتظامات کی تفصیلات بتانے کی ضرورت تھی ۔ اس لاک ڈاؤن میں بھی یہ لوگ سچائی کو دبا رہے ہیں ، جھوٹ کو ابھارا جارہا ہے ۔ جھوٹ کو قابل فخر سمجھا جارہا ہے ۔ 25 مارچ سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہے اور 3 مئی تک توسیع دی گئی ہے ۔ اس مدت کے دوران ملک کی معیشت اور غریب عوام کی حالت کیسی ہوجائے گی یہ غور ہی نہیں کیا جارہا ہے ۔ وزیراعظم نے بعض علاقوں میں نرمی اختیار کرنے کی بات کہی ہے لیکن کیا اس طرح کی نرمی سے معیشت کی ابتری کو روکا جاسکے گا ۔ مالیاتی پیاکیج کے ذریعہ تباہ ہونے والی معیشت کو سہارا دینے کوئی نسخہ تیار کیا گیا ہے ۔ یہ تمام باتوں کا وزیراعظم کی تقریر میں خاص ذکر نہیں تھا ۔ وزیراعظم کے اعلان کا ان کے چاہنے والوں نے توقع کے مطابق خیر مقدم کیا ہے لیکن عوام کی بڑی تعداد کو اس بات پر حیرت ہوئی ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا وائرس کے 10 ہزار سے زائد کیس ہوئے ہیں ۔ وزیراعظم نے عوام سے اظہار تشکر کیا ہے کہ انہوں نے ان کی بات سن کر خود کو لاک ڈاؤن کی پابندیوں پر عمل کرنے کے لیے تیار کیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوام اس ملک کے وزیراعظم سے یہی سننے کے لیے رہ گئے ہیں کہ وہ ان پر پابندیاں نافذ کرے اور عوام ان پابندیوں پر عمل کریں اور عوام کو ان پابندیوں پر عمل کرنے کا صلہ صرف شکریہ ہی ہوگا یا کچھ ٹھوس راحت اقدامات ہوں گے ۔ وزیراعظم کی تقریر نے عوام کی بڑی تعداد کو حیرت میں ڈالدیا ۔ اس کے ساتھ تشویش بھی بڑھ گئی ہے کہ کھوکھلی باتوں سے اس ملک کا آنے والا کل کیسا ہوگا ۔ لاکھوں غریب عوام کا گذر بسر کیسے ہوگا ۔ اہل خیر حضرات کب تک دامے درمے سخنے اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں کا پیٹ بھرنے کا انتظام کرتے رہیں گے ۔ وزیراعظم کی تقریر میں اس مرتبہ معیشت اور عوام تک امداد پہونچانے کی باتیں ہونی چاہئے تھی ۔ اور اس ملک کے ماہرین معاشیات کی تجاویز کے مطابق مالیاتی راحت فراہم کرنے کا اعلان کیا جاتا ۔ ملک کی کئی ریاستوں کے چیف منسٹروں نے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مرکز سے مالیاتی امداد کی اپیل کی تھی لیکن اس اپیل کو بھی نظر انداز کردیا گیا ۔ اب غریب عوام 21 دن کی مار کے بعد مزید 19 دن کے لیے غذا کی تلاش کس طرح کرتے رہیں گے۔۔؟