وزیر اعظم کا سیاسی قائدین سے رابطہ

   

تھوڑی ہی سہی درد کی روداد تو ہوتی
تکمیل طلب عشق کی فریاد تو ہوتی
وزیر اعظم کا سیاسی قائدین سے رابطہ
وزیرا عظم نریندرمودی نے اتوار کو ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے فون پر رابطہ کرتے ہوئے ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ۔ یہ پہلا موقع کہا جاسکتا ہے جب وزیر اعظم نے اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین سے رابطہ کرتے ہوئے ملک کو درپیش صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ۔ کورونا وائرس نے ہندوستان میں بھی تیزی سے پھیلنا شروع کردیا ہے ۔ یومیہ متاثرین کی تعداد میں اب سابق کی بہ نسبت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور مہلوکین کی تعداد بھی بتدریج 100 کے قریب پہونچ رہی ہے ۔ سارے ملک میں لاک ڈاون چل رہا ہے ۔ عوام اپنے گھروں میں بند ہیں۔ بازار بند کردئے گئے ہیں۔ ذرائع حمل و نقل کو روک دیا گیا ہے ۔ ٹرین ‘ بس اور ہوائی جہاز وغیرہ سب بند ہیں۔ ہر طرح کی سیاسی ‘ مذہبی اور ثقافتی سرگرمیاں بند کردی گئی ہیں۔ حکومت اور ملک کے سارے عوام میں صرف کورونا وائرس کے تذکرے چل رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مسلسل اپنے اقدامات کو اجاگر کیا جا رہا ہے ۔ وائرس کی صورتحال سے عوام کو واقف کرواتے ہوئے انہیں لاک ڈاون کی پابندی کرنے کو کہا جا رہا ہے ۔ عوام کو امداد کی فراہمی کے بھی اعلانات کئے گئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک ان اعلانات پر عمل آوری کا آغاز نہیں ہوسکا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسلسل زور دیا جا رہا تھا کہ حکومت عوام کو راحت پہونچانے کیلئے اقدامات کا آغاز کرے ۔ اس کے علاوہ لاک ڈاون کسی پیشگی منصوبے کے بغیر لاگو کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک میں کورونا معائنوں کی اتنی سہولت نہیں ہے جتنی ہونی چاہئے ۔ اس کے علاوہ یہ کام بہت معمولی رفتار سے کیا جا رہا ہے اور یومیہ چند سو یا چند ہزار معائنے ہی ممکن ہو پا رہے ہیں جبکہ اس تعداد میں بہت زیادہ اضافہ کی ِضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ طبی سہولیات اور ادویات کی فراہمی میں بھی قلت کا شکوہ عام ہوتا جا رہا ہے اور دواخانوں کی حالت زار اور یہاں انفرا اسٹرکچر کی کمی کی بھی شکایات آنے لگی ہیں۔اس جانب حکومت کو فوری طور پر اور زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
چونکہ سارا ملک کورونا وائرس کی وجہ سے پریشان ہے ایسے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم کی پہل ایک اچھی بات ہے ۔ بحران اور مشکل کے اس وقت میں سبھی سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے اور انہیںاعتماد میں لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ حالات کو بہتر بنانے اور مشکلات کو کم سے کم کرنے کیلئے اپوزیشن کی تجاویز اور رائے بھی حاصل کی جانی چاہئیں۔ تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ یہ کام کافی تاخیر سے کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم کو چاہئے تھا کہ وہ اپوزیشن قائدین سے ملک میں لاک ڈاون نافذ کرنے سے پہلے بھی تبادلہ خیال کرتے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک سے زائد مرتبہ بات چیت نہیں ہوسکتی ۔ جس وقت سارے ملک میں لاک ڈاون نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اس وقت تو سبھی نے عوام میں نراج اور بے چینی کو روکنے کیلئے اس کی تائید کی تھی لیکن بتدریج اس کی وجہ سے ہونے والی مشکلات کو بھی اجاگر کیا جانے لگا تھا ۔ خاص طور پر یومیہ اجرت پانے والے غریب عوام اور تارکین وطن مزدوروں کے مسائل پر سبھی جماعتوں نے حکومت کو نشانہ بنایا تھا ۔ لاک ڈاون یقینی طور پر ملک کیلئے ضروری تھا تاکہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے ۔ تاہم اس پر موثر عمل آوری اور بہتر انداز میں نفاذ کیلئے ضروری تھا کہ حکومت کی جانب سے اپوزیشن سے رابطے کئے جاتے ۔ ان کی تجاویز اور آراء حاصل کرتے ہوئے اس کو زیادہ موثر بنایا جاسکتا تھا ۔
وزیر اعظم نے دیر آئد درست آئد کے مصداق اپوزیشن سے رابطہ تو کیا ہے اور انہوں نے وائرس کے پھیلاو کو روکنے کیلئے اقدامات پر بات چیت کی ہے ۔ ایک اور پہلو ہے جس پر وزیر اعظم کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور وہ پہلو اس وائرس کے خلاف لڑائی کو فرقہ وارانہ اور مذہبی رنگ دینے کی کوششوں کا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جاسکتا کہ فرقہ واریت کا وائرس کوروناو ائرس سے زیادہ خطرناک ہے ۔ اگر آج کے اس مشکل ترین اور بحران جیسے حالات میں بھی ملک میں ہندو ۔ مسلم کا خطرناک کھیل کھیلاجاتا رہے تو پھر اس سے زیادہ افسوس اور تکلیف کی بات کچھ اور نہیں ہوسکتی ۔ فرقہ پرستی کے وائرس پر قابو پانے کی زیادہ ضرورت ہے ۔ ایک دوسرے کو ذ مہ دار قرار دینے اور نفرت پھیلانے کی سازشوں کو روکنے پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔