وزیر اعظم ہندوستان کی اقلیتوں کی فکر کریں

   

شدّتِ احساسِ ناکامی نہ پوچھ
ہر تمنّا بن گئی موجِ سراب
وزیر اعظم ہندوستان کی اقلیتوں کی فکر کریں
وزیر اعظم نریندر مودی فی الحال کرناٹک کے دورہ پر ہیں۔ وہاں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے تعلق سے خاموش کیوں ہیں ؟ ۔ انہوں نے ان احتجاجیوں کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کے مظالم کے خلاف احتجاج کریں۔ نریندر مودی یقینی طور پر اچھی تقاریر کرنے اور عوام کو لچھے دار باتوں اور جملوں میں الجھانے میں مہارت رکھتے ہیں لیکن انہیں یہ حقیقت فراموش نہیںکرنی چاہئے کہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ ہندوستان کے عوام نے انہیں ووٹ دے کر ملک اور ملک کے عوام کی بہتری کیلئے کام کرنے کاموقع دیا ہے ۔ پاکستان کے عوام یا وہاں کی اقلیتوں کی فکر کرنے کی ذمہ داری ان کی نہیں ہے ۔ وزیر اعظم دوسروں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کی اقلیتوں کی فکر کریں لیکن خود وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ہندوستانی اقلیتوں کی فکر نہیں کر رہے ہیں اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے تعلق سے ان کی زبان خاموش ہی ہوا کرتی ہے ۔ اس ملک میں اقلیتوں پر این ڈی اے حکومت میں کافی مظالم ہوئے ہیں۔ گئو کشی کے نام پر مسلمانوں کو ہجومی تشدد میں پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتارنے کے اتنے واقعات پیش آئے کہ ساری دنیا میں اس کا تذکرہ کیا گیا ۔ اس کے علاوہ دلتوں کو بھی اسی طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا گیا ۔ عیسائی برادری کی عبادتگاہوں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی ۔ پولیس کی جانب سے الگ سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ اب تو حد یہ ہوگئی کہ اقلیتوں کی شہریت پر ہی سوال اٹھانے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ نریند رمودی کے وزراء کھلے عام مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ مودی کو ووٹ نہ دینے والے اس ملک میں نہیں رہ سکتے ۔ کوئی کہتا ہے کہ مسلمانوں کا 2021 تک صفایا کردیا جائیگا ۔ کوئی مسلمانوں کو مشورہ دیتا ہے کہ اگر گائے کا گوشت کھانا ہے تو انہیں پاکستان چلے جانا چاہئے ۔ کسی گوشے سے اقلیتوں کو تمام دستوری اور جمہوری حقوق سے محروم کردینے کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں۔
سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کا تناسب مسلسل گھٹایا جا رہا ہے ۔ سرکاری اسکیمات میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے ۔ تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کے ساتھ ان کے رہن سہن اور لباس کی بنیاد پر امتیاز برتا جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہو رہا ہے کہ ہندوستان کو آزادی دلانے میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں نے بھی دیگر ابنائے وطن کے برابر حصہ لیا تھا ۔ اقلیتوں کی قربانیاں بھی جدوجہد آزادی میں بے مثال ہیں۔ آج بھی تاریخ انہیں سنہری حرفوں میں یاد رکھتی ہے ۔ ملک کی جدوجہد آزادی کی تاریخ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی قربانیوں کے تذکرہ کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی ۔ ہندوستان کا جو شاندار تہذیبی ورثہ ہے وہ بھی اقلیتوں کے بے مثال اور شاندار ماضی کی مثال ہے ۔ اس کے باوجود آج ملک میں اقلیتوں سے ناانصافیاں عروج پر پہونچ گئی ہیں۔ ان کے لباس پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ان کے کھانے پر احکام جاری کئے جا رہے ہیں۔ ان کے حقوق کو سلب کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنادینے کے منصوبوں پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ ہندوستان سے نکل جانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ یہ سارا کچھ ہندوستان کے بنیادی کلچر اور یہاں کی قدیم روایات کے مغائر ہے اس کے باوجود نہ حکومت اس تعلق سے کوئی بات کرتی ہے اور نہ وزیر اعظم اس پر لب کشائی کرتے ہیں۔
آج وزیر اعظم ملک کے عوام کو ہی درس دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے تعلق سے لب کشائی کریں۔ ایسے مسائل کیلئے عالمی فورم موجود ہیں ۔ وہاں نمائندگی کی جاسکتی ہے ۔ لیکن ملک کے اندر کے حالات پر توجہ دینا اور یہاں کی اقلیتوں کے تعلق سے لب کشائی کرنا وزیر اعظم کے فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل ہیں اس کے باوجود وزیر اعظم ایسا کرنے سے گریز کر تے ہیں ۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ پڑوسی ممالک کی اقلیتوں کی فکر بعد میں کریں اور پہلے ملک کی اقلیتوں کی فکر کریں۔ انہیں دستور کے تحت بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں اور ان سے ہونے والی ناانصافیوں کا خاتمہ کریں۔