وطن کے مصنوعی وفاداروں سے قوم پرستی کو خطرہ

   

برکھا دت
ہم بلوہ مچانے والوں کے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ ایسے لوگوں کا ہجوم ہے جو حب الوطنی کے خودساختہ پولیس مین ہیں جو ہمارے سوشل میڈیا پوسٹس کی نگرانی کرتے ہیں اور ہمارے ذہنوں کی تخیلی دیواروں تک رسائی کے ذریعے دیکھتے ہیں کہ آیا ہم اُن کی مقررہ آزمائشوں میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام۔ ٹیلی ویژن اینکرز جنھوں نے کبھی آخری رسومات کے دکھ کو نہیں جانا، کبھی خون یا لاشوں کا نظارہ نہیں کیا اور کبھی کسی لڑائی یا جنگ کے خطہ سے رپورٹنگ نہیں کی، وہ بڑے طمطراق سے ہر رات قوم پرست اور قوم دشمن کے سرٹفکیٹ دیتے ہیں۔ دائیں بازو کے ٹھگ غریب کشمیری تاجروں کو لکھنو کی سڑکوں پر پیٹتے ہیں۔ اُن کے زیادہ وسائل کے حامل ہم خیال عناصر ٹوئٹر پر انھیں دھمکی دیتے اور مغلظات بکتے ہیں جو ایسی غلط حرکتوں کو گفتگو میں لانے کی جرأت کرتے ہیں۔ مجھے اس کا شخصی طور پر تجربہ ہوا ہے۔ ایسا کہنے پر کہ بے قصور کشمیری اسٹوڈنٹس کو نشانہ بنانے والے پاکستان کے ہاتھوں میں کھلونا بن رہے ہیں، اور پھنسے ہوئے کشمیریوں کو مدد کی پیشکش کرنے پر مجھے مربوط ہجومی حملے نے زائد از ایک ہزار کالز، ناشائستہ تصویروں اور موت کی دھمکیوں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ یہ گھٹیا پن خبیث ہے۔ اگر کوئی قوم دشمن ہے تو وہ یہی دنگے کرنے والے غنڈے ہیں۔ وہ قوم پرست نہیں ہیں؛ وہ مصنوعی محب وطن ہیں۔ میں یہاں تک کہنا چاہوں گی کہ خود اُن کی تشریح سے وہ غدار ہیں۔ یہ اس لئے کہ پاکستانی اعتبار سے اس سے زیادہ موزوں کچھ نہیں ہوسکتا کہ ہندوستانی شہری خود آپس میں لڑنے جھگڑنے لگیں۔
ہمیں ضرور اپنے آپ سے یہ پوچھنا ہوگا کہ کس طرح ہم اس مرحلہ تک پہنچ گئے۔ کیسے یہ وحشی، مکروہ، غنڈوں کی اُصولوں کی کتاب وجود میں آگئی جو تشریح کرے کہ کس طرح ہم خود کو اور ایک دوسرے کو دیکھیں؟ اس موضوع پر بہت بات ہورہی ہے کہ ہندومت کو ہندوتوا کی جکڑ سے نکال لائیں۔ اس سے زیادہ اہم ضرورت قوم پرستی کو مصنوعی حب الوطن عناصر سے بچا لانا ہے۔ بدقسمتی سے میرے کئی روادار دوست بالخصوص وہ جو بائیں بازو سے وابستہ ہیں، انھیں اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ وہ تو ہندوستانی مملکت کے تئیں وفاداری کے کوئی بھی صاف ظاہر ہونے والے مظاہروں یا حب الوطنی کے جذبے کے کسی بھی برملا اعلان پر ہی پریشانی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ وہ قوم پرستی کی تشریح بہت خاص، ادبی اور نازک انداز میں کرتے ہیں جس کی جڑیں ہنوز یورپی تاریخ میں پیوست ہیں۔قوم کے نظریہ کو اپنی نامنظوری یا اس سے بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے لیفٹ (بائیں بازو) نے ساری جگہ رائٹ (دائیں بازو) کیلئے خالی چھوڑ دی کہ قوم پرستی کی تشریح ایسے انداز میں کرو جیسے تم چاہو۔ لیفٹ کے اُصول نے رائٹ کو عروج حاصل کرنے کا موقع دیا اور اس کے نتیجے میں حب الوطنی کے اُصولوں کی خام کتاب تیار ہوگئی۔
حال ہی میں، مجھے چند رفقاء نے پلوامہ دہشت گردانہ حملہ اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی کارروائی کے پس منظر میں کھلے طور پر خود کو ’’انڈین‘‘ جرنلسٹ ظاہر کرنے پر تنبیہ کی۔ بعض رفیقوں نے آپریشنس کا حصہ بننے والے نوجوان انڈین ایئر فورس پائلٹس کی ہمت کو سراہنے پر مجھ پر تنقید کی۔ دیگر نے میرے اس استدلال پر اعتراض کیا کہ پلوامہ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے اڈہ پر ہندوستانی حملہ کا تعلق جنگ سے نہیں بلکہ انصاف سے ہے۔ عجب بات ہے کہ وہی دنوں میں جبکہ بائیں بازو والے مجھے جنگ کی حمایتی قرار دے رہے تھے، دائیں بازو والے بدستور میرے اس موقف پر میری حب الوطنی پر سوال اٹھاتے رہے کہ ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ سخت ہونا چاہئے لیکن کشمیر میں خود اپنے لوگوں کے ساتھ حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لبرل و لیفٹ کی قابل احترام شخصیتوں کے ساتھ میرے تبادلہ خیال نے مجھے یہ بتایا کہ وہ ہندوستان میں عظیم تر جذبات کے ساتھ وہ کس قدر بے رابطہ ہوگئے ہیں۔
اول، انڈین اسٹیٹ اور انڈین گورنمنٹ ایک دوسرے سے بدلنے والی چیزیں نہیں۔ میں برسراقتدار پارٹی سے سوال پوچھنے کا میرا حق (اور فرض) کھوئے بغیر نوجوان سپاہیوں اور ونگ کمانڈروں کی ہمت کی تعریف کرسکتی ہوں اور کرتی ہوں۔ دوم، کس طرح کوئی سمجھ نہیں سکتا اور پاکستان کی گہری مملکتی سرپرستی میں ہونے والے بے تکان دہشت گردانہ حملوں پر برہمی کا اظہار نہیں کرسکتا ہے؟ یہ صورتحال نہ مجھے روکتی ہے اور نہ کسی اور کو کہ حکومت سے زیادہ مؤثر اور شفاف رابطہ کے بارے میں سوال پوچھے جائیں؛ یا سپاہیوں کو ووٹ اکٹھا کرنے کے سامان کے طور پر استعمال کئے جانے پر اعتراض کیا جائے۔ اور ہر کسی کو جنگ کے ویٹرنس اور اس یونیفارم کی عزت کا احساس ہونا چاہئے (میں کرتی ہوں) اور ساتھ ہی دیسی سطح پر کشمیر پالیسی میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی بھی کرنا چاہئے (میں کرتی ہوں)۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں بعض دانشمندانہ باتیں ان جنرلوں کی طرف سے آئیں جو وادی میں خدمات انجام دے چکے ہیں، جن میں 2016ء کے پہلے سرجیکل اسٹرائک کی قیادت کرنے والے آفیسرز شامل ہیں۔
امریکہ جو اقوا م میں سب سے زیادہ آزاد خیال ملک ہے، ایک سبق آموز مثال ہے۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنس چاہے کسی بھی موضوع پر بحث کریں، حب الوطنی نااتفاقی کا نکتہ نہیں ہوتا ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما جو لبرلس کے چہیتے لیڈر ہیں، انھوں نے اسامہ بن لادن کو پاکستان کے اندرونی علاقے سے باہر نکالا، اور اس آپریشن کی وسیع طور پر ستائش ہوئی۔ وہ جنگ کی خواہش رکھنے والے لیڈر نہیں ہوئے؛ نا ہی وہ جرنلسٹس جنھوں نے یو ایس نیوی سیلز کی مہارت کو سراہا۔
سی این این کے کافی شہرت یافتہ اور آزادی سے کام کرنے کا شہرہ رکھنے والے جیک ٹاپر امریکن اسٹیٹ (نہ کہ حکومت) کے ساتھ اپنی وابستگی کو پوشیدہ نہیں رکھتے ہیں۔ درحقیقت، ملٹری ویٹرنس کیلئے وہ شخصی طور پر فنڈ اکٹھا کرنے کی مہم چلاتے ہوئے اپنے ناظرین سے اس میں حصہ لینے کی اپیل کرتے ہیں۔ دو سیاستدان جو بی جے پی کے مخالف ہیں لیکن اس مثال میں موزوں معلوم ہوتے ہیں، یوگیندر یادو اور اسدالدین اویسی ہیں۔ دونوں نے مختلف انداز میں اس دستوری حب الوطنی کی عزت و توقیر کی ہے جس کے نمائندے ہندوستان کے مجاہدین آزادی ہیں۔
بائیں بازو کے کئی مبصرین کے تبصرے ہنسی مذاق اور حد سے زیادہ سہل پسندانہ رہے ہیں۔ اگر وہ جو بالعموم ’’نظریۂ ہندوستان‘‘ کے تحفظ کے تعلق سے بے تکان بات کرتے ہیں، اس جذبے کا مضحکہ اڑانے لگیں جو ہندوستان کیلئے عوام محسوس کرتے ہیں، تو وہ خود کو مذاق بنارہے ہیں اور لبرل ازم کی بدخدمتی کررہے ہیں۔ ہمیں عوام کی حیثیت سے ہماری قوم پرستی کو دوبارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اور جسے دائیں بازو کی ’نگرانی‘ سے بھی اتنا ہی آزاد کرنا ہے جتنا بائیں بازو کی حقارت بھری نظروں سے بچانا ہے۔