وقت کی قدر اور علم کی طلب میں علماء کرام و سلف صالحین کے

   

سنہرے نقوش

عمر، حیات، وقت اور زمانہ اللہ سبحانہ تعالی کی عظیم نعمت ہے۔ جو اپنے اوقات کا محافظ ہے، وہ عقلمند و دانا ہے اور جو اپنے اوقات کو لہو و لعب، کھیل کود، لایعنی و فضول چیزوں میں ضائع کردیتا ہے، وہ شخص احمق ہے۔ وقت و حیات کی قدر و قیمت اس لئے ہے کہ وہ محدود و متعین ہے۔ وقت مقررہ پر انسان کی روح اس کے جسد خاکی کو چھوڑکر رخصت ہو جاتی ہے اور وہ اپنی زندگی کے شب و روز اور وقت و ساعات کا جوابدہ ہوتا ہے۔ اس کو اللہ تعالی کے دربار میں جواب دینا ہوتا ہے کہ اس نے اپنی عمر عزیز کو کن اعمال و افعال میں صرف کیا ہے، اسی پر اس کی نجات، سعادت مندی یا بدبختی کا فیصلہ ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے: ’’کیا تم نے سمجھ لیا کہ ہم نے تم کو فضول پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم واپس لوٹنے والے نہیں ہو‘‘۔ (سورۃ المؤمنون)
اللہ سبحانہ و تعالی کے دربار میں لوٹنا ہے اور اس کو حساب و کتاب دینا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’قیامت کے دن کسی بندے کے قدم ہٹیں گے نہیں، یہاں تک کہ اس سے سوال نہ کیا جائے کہ اس نے اپنی عمر کس میں فنا کی ہے؟۔ اس نے اپنے علم پر کس قدر عمل کیا ہے؟۔ اس نے مال کہاں سے کمایا؟ اور کس چیز میں خرچ کیا ہے؟ اور کس چیز میں اس نے اپنے بدن کو ہلاک کیا ہے؟‘‘۔
جوابدہی اور محاسبہ اسلام کے بنیادی و اساسی ارکان میں سے ہیں کہ بندۂ مؤمن آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے، جہاں اس کو اپنی زندگی، عمر، اوقات اور حیات کے بارے میں تفصیلی جواب دینا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺنے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’پانچ چیزوں سے قبل پانچ چیزوں کو غنیمت جانو۔ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے قبل، صحت کو بیماری سے قبل، تونگری کو تنگدستی سے قبل، فراغت کو مصروفیت سے قبل، اپنی حیات کو موت سے قبل‘‘۔ (مستدرک، کتاب الرقاق بروایت حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ)
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’بدایۃ الھدایۃ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’تمہارے اوقات تمہاری عمر ہے اور تمہاری عمر تمہارا اصل سرمایہ ہے، اسی پر تمہاری تجارت کا مدار ہے، اسی سے تم اللہ تعالی کے قرب و جوار میں جنت کی ہمیشگی کی نعمتوں کو حاصل کرسکتے ہو۔ تمہاری سانسوں میں سے ہر ایک سانس فی الواقعی ایک انمول و لاقیمت جوہر ہے، جس کا کوئی بدل و عوض نہیں اور جب ایک سانس چلی جائے تو اس کی واپسی ممکن نہیں۔ پس تم ان بیوقوفوں کی طرح نہ ہو جاؤ، جو ہر دن اپنے مال و دولت میں اضافہ سے خوش ہوتے ہیں، جب کہ ان کی عمر کم ہوئی ہے۔ کونسی بھلائی ہے اس مال میں جس میں اضافہ ہوتا ہے اور عمر کم ہوجاتی ہے۔ تم صرف اور صرف علم اور عمل میں اضافہ سے ہی خوش ہو، کیونکہ یہ دونوں ہی تمہارے رفیق ہیں ، جو قبر میں تمہارے ساتھ آتے ہیں۔ جب کہ تمہارا مال، تمہارے اہل و عیال، مال و دولت اور دوست و احباب پیچھے رہ جاتے ہیں‘‘۔
حضرت موسی کاظم رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ ’’جس کے دو دن برابر ہوں، پس وہ خسارے میں ہے اور جس نے اپنے آپ میں اضافہ نہ پایا وہ نقصان میں ہے‘‘۔ (نثر الآلی۲:۲۲)
علماء کرام، سلف صالحین زندگی کے ایک ایک لمحہ اور ایک ایک سانس کی قدر کرتے اور اس کو استعمال کرتے، حتی المقدور اس کی حفاظت کرتے، ضائع نہیں ہونے دیتے۔ حضرت مفضل بن یونس رحمۃ اللہ علیہ جب رات آتی تو وہ کہتے کہ میری عمر میں سے ایک کامل دن ختم ہو گیا اور جب صبح ہوتی تو کہتے کہ میری عمر میں سے ایک کامل رات چلی گئی‘‘۔ (کلام اللیالی والایام لابن آدم، صفحہ ۲۷،۲۸)
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر محدث ہیں۔ حدیث شریف کی کوئی کتاب آپ کی روایات سے خالی نہیں۔ جب آپ بصرہ تشریف لائے اور حماد بن سلمہ کو دیکھا تو علی الفور ان سے خواہش کی کہ ’’ابوالعشراء (راوی کی کنیت) نے اپنے والد سے جو روایت بیان کی ہے اس کو نقل کیجئے‘‘۔ حضرت حماد بن سلمہ نے ابوالعشراء سے روایت کردہ مکمل حدیث شریف حضرت سفیان ثوری کو سنادی۔ جب وہ حدیث شریف سنانے سے فارغ ہوئے تو حضرت سفیان ان کے قریب گئے، پھر سلام و معانقہ کیا۔ حضرت حماد بن سلمہ نے دریافت کیا: ’’آپ کون ہیں؟‘‘۔ فرمایا: ’’ہاں، تم ابوعبد اللہ ہو (عبد اللہ کے والد)‘‘۔ فرمایا: ’’ہاں!‘‘۔ جب حضرت حماد نے حضرت سفیان ثوری کو پہچان لیا تو فرمایا: ’’آپ نے حدیث شریف کے بارے میں سوال کرنے سے قبل مجھ کو سلام کیوں نہ کیا؟‘‘۔ فرمایا: ’’مجھے اندیشہ ہوگیا کہ کہیں آپ کو موت لاحق نہ ہو جائے اور میں آپ سے حدیث شریف سننے سے محروم ہو جاؤں‘‘۔
تاریخ اسلام میں ایک ایسا انوکھا واقعہ درج ہے، جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اور تاقیامت ضرب المثل بن کر آنے والی نسلوں کو پیغام دیتا رہے گا کہ استاد کون ہوتا ہے اور اس کو علم کے فروغ میں کس قدر دلچسپی اور والہانہ عقیدت ہوتی ہے۔ حضرت قتادہ بن دعامہ السدوسی رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر تابعی ہیں۔ امام ذہبی نے اپنی کتاب (سیر اعلام النبلاء ۵: ۲۶۹) میں ان کے تذکرہ میں ان کو حافظ العصر، قدوۃ المفسرین والمحدثین لکھا ہے اور ذکر کیا کہ قوت حافظہ میں ضرب المثل تھے۔ سید التابعین حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ کے شاگرد تھے۔ حضرت سعید بن مسیب اپنے شاگرد رشید حضرت قتادہ کو فرماتے ہیں کہ ’’میرے پاس قتادہ سے بڑھ کر حافظہ والا کوئی عراقی نہیں آیا، میں نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالی نے تجھ جیسا کوئی پیدا کیا ہو‘‘۔
جب بنوامیہ کے حکمرانوں نے ولیعہد کے مسئلہ میں بیعت نہ کرنے پر حضرت سعید بن مسیب کو سخت سزائیں دیں اور ان کو زیر ناف تا گھٹنوں کپڑے پہناکر دھوپ میں کھڑا کردیا اور کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی تو ایسے وقت میں ان کے ہونہار طالب علم حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے فوجی سے کہا کہ مجھے ان کے قریب کردو‘‘۔ جب وہ فوجی حضرت قتادہ کو حضرت سعید بن مسیب کے قریب لے گیا تو حضرت قتادہ نے عین اس تکلیف دہ و ناگفتہ بہ حالات میں حضرت سعید بن مسیب سے استفسارات شروع کردیئے، اس اندیشہ سے کہ علم کا یہ حصہ ان سے فوت نہ ہو جائے اور حضرت سعید بن مسیب کی حالت یہ تھی کہ وہ ان کے ہر سوال کا جواب پوری دلجمعی سے حصول ثواب کے لئے عنایت فرما رہے تھے اور سارے لوگ تعجب میں تھے۔
کیسے یہ استاد و شاگرد تھے اور علم کا کیا اونچا مقام و مرتبہ ہے کہ حضرت قتادہ نے گوارہ نہیں کیا کہ حضرت سعید بن مسیب اس دنیا سے رخصت ہو جائیں اور ان کے ساتھ ان کا علم بھی فنا ہو جائے۔ وہ آنے والی نسل تک علم دین کو پھیلانے کی جو ذمہ داری ہے، اس سے واقف تھے اور کسی بھی لمحہ حصول علم سے غافل نہ رہتے۔
ابن ابی حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ جب ان کے والد نزع کی حالت میں تھے، اس وقت انھوں نے سوال کیا: ’’کیا حضرت عقبہ بن عبد الغافر (جو بصرہ کے جلیل القدر راویوں میں سے تھے اور سنہ ۸۳ھ میں فوت ہوئے تھے) صحابی رسول ہیں؟‘‘۔ میرے والد نے اس وقت نہایت کمزور آواز میں جواب دیا: ’’نہیں‘‘۔ اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمائے ان اصحاب پر، جو اپنی آخری سانس تک علم دین کو پھیلانے اور اس کی نشرواشاعت کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ (آمین)