حیدرآباد۔تلنگانہ کی اوقافی جائیدادوں کی تباہی میں سب سے بڑا رول محکمہ اوقاف کے غیر سنجیدہ رویہ کا ہے۔ اب تک کروڑ ہاروپیوں کی اوقافی جائیدادیں تباہ ہوگئی ہیں اور باقی جائیدادوں کی حفاظت کے لئے بھی موثر طریقہ اپنانے سے ارباب مجاز قاصر ہیں۔
شہر کے مضافاتی علاقے اوپل کلاں میں واقع قطب شاہی مسجد کی دوایکڑ سے زائد اراضی پر بھی خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں۔اوپل کلاں میں سروے نمبر 8کے تحت قطب شاہی مسجد کی 2ایکڑ 21گنٹہ کی اراضی ہے او رمسجد سے متصل ایک قبرستان بھی ہے ۔
مسجد کی کھلی اراضی اور قبرستان کی حصاربندی کے لئے پچھلے دیڑھ سال سے مسجد کمیٹی اور مقامی رضاکارانہ تنظیمیں کوشش کررہی ہیں۔
اب جبکہ محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے رقم کی اجرائی عمل میں لائی گئی ہے تو کچھ مقامی شرپسند عناصر کام میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مذکورہ قیمتی وقف اراضی کھلی ہونے کی وجہہ سے یہاں پر ائے دن غیر مجاز قبضوں کی بھی کوششیں کی جاتی ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ ہر سال دسہرہ کے موقع پر مسجد کے روبر و وقف اراضی پر روان کا پتلا نذر آتش کرنے کاکام کیاجاتا ہے ۔
حالانکہ مقامی مسلمانوں نے اس پر کئی مرتبہ اعتراض بھی جتایا مگر ہر مرتبہ پولیس کی پشت پناہی میں یہاں پر پتلا نذر آتش کرنے کاکام دھوم دھام سے کیاجانے لگا۔
دسہرہ تقریب کے دوران مصلیان مسجد کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘ اسکے باوجو د شر انگیز سے بچنے کے لئے مقامی لوگ پولیس اور دیگر محکموں سے اس ضمن میں نمائندگیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
مسجد کمیٹی او رمقامی لوگوں نے 24اکٹوبر 2016چیف ایکزیکٹیو افیسر وقف بورڈ سے تحریری نمائندگی کے ذریعہ کھلی اراضی کی حصار بندی کی درخواست کی تھی ۔
نمائندگی پر عدم کاروائی کے پیش نظر مقامی رضاکارانہ تنظیموں نے دوسال بعد اس وقت کے وزیرمال الحاج محمد محمود علی سے نمائندگی کرتے ہوئے وہا ں کے تمام حالات سنائے ۔
جس کے بعد اس وقت کے وزیرمال نے 02-04-2018کو محکمہ اقلیتی بہبود کے نام ایک مکتوب جاری کرتے ہوئے مذکورہ مسجد سے متصل وقف اراضی اور قبرستان کی حصار بندی کے لئے اپنے فنڈ سے پیسے ادا کرنے کا تیقن دیتے ہوئے پیسے جاری کرنے کی ہدایت دی تھی۔
جس کے بعد اٹھارہ لاکھ نوہزار روپئے کی رقم حصار بندی کے لئے جاری کردی گئی ۔ کلکٹر رنگا ریڈی نے حصاربندی کے متعلق تخمینہ لاگت تیارکرنے کی ہدایت دی جس کے بعد جی ایچ ایم سی اور متعلقہ ایم آر او کی ٹیم چہارشنبہ کے روز قطب شاہی مسجد پہنچے تاکہ حصاربندی کی لاگت کااندازہ لگایاجاسکے ۔
مگر مقامی شر پسند موقع پر پہنچ کر حصاربندی کی یہ کہتے ہوئے مخالفت شروع کردی کہ اس مقام پر وہ لوگ ہر سال روان کاپتلا نذر آتش کرتے ہیں لہذا حصار بندی نہ کی جائے ۔
شر پسند عناصر نے اس ضمن میں ایم آر او سے نمائندگی بھی کی جس کے بعد ایم آر او آگے کی کاروائی کرنے سے یہ کہتے ہوئے بچنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آر ڈی او کی ہدایت تک وہ وہاں پر کام شروع نہیں کرسکتی ہیں۔ حصاربندی کے لئے ایک تعمیری کمیٹی بھی تشکیل دی جاچکی ہے۔
ڈپٹی کمشنر سرکل دو اوپل جی ایچ ایم سی اس کمیٹی کے چیر پرسن ہے جبکہ تحصلیدار اوپل منڈل ‘ جی ایچ ایم سی کنونیر اور دیگر نوافراد اراکین میں شامل ہیں ۔ ایم آر او کا کہنا ہے کہ جب تک وقف عہدیدار بھی حصاربندی کے کام میں جب تک شامل نہیں ہونگے تب تک اس کام کاشروع ہونا ممکن نہیں ہے۔
سی ای اواو رچیرمن وقف بورڈ کی اب ذمہ داری ہے کہ وہ تحصیلدار اور آرڈی اوسے فوری با ت کرتے ہوئے قیمتی وقف اراضی کی حصار بندی کو یقینی بنانے کاکام کریں۔