وقف ترمیمی بل کیخلاف احتجاج

   

ملک بھر میں وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاج زور پکڑتا جا رہا ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس احتجاج کی قیادت کر رہا ہے اور دہلی کے جنتر منتر پر منظم کردہ مظاہرہ کے بعد بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں بھی بورڈ کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا ۔ اب ہفتے کو آندھرا پردیش کے وجئے واڑہ شہر میں بھی احتجاج منظم کیا جارہا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس متنازعہ بل کو ایوان میں پیش کرنے اور پھر اسے منظوری دلانے کی کوششوں کے خلاف بورڈ کی جانب سے بھی احتجاج میں شدت پیدا کردی گئی ہے اور خاص طور پر پٹنہ اور وجئے واڑہ میں احتجاج اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو مرکزی حکومت کے حلیف ہیں اور ان کی جماعتیں مودی حکومت کی تائید کر رہی ہیں۔ ان جماعتوں کی تائید کے نتیجہ ہی میںمودی حکومت مرکز میں برقرار ہے اور ان ہی کی تائید کے نتیجہ میںمتنازعہ وقف ترمیمی بل کو پیش کیا گیا ہے اور اس کی منظوری کیلئے کوششیںکی جا رہی ہیں۔ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو خود کو مسلم دوست لیڈر کہلاتے ہیں اورا پنی اپنی ریاست میںمسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے اقتدار کو یقینی بنانے کیلئے مرکز کی مودی حکومت کے ساتھ ہوگئے ہیں اور اسی وجہ سے اب وقف بل کی تائید بھی کر رہے ہیں۔ نتیش کمار ہوں یا پھر چندرا بابو نائیڈو ہوں دونوں کو مستقبل میں بھی مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی اور انہیں اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر ان کی جماعتوں کو انتخابات میں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ مسلمان وقف جائیدادوں کے تحفظ کیلئے کمربستہ ہوگئے ہیں اور وہ اس کیلئے طویل جدوجہد بھی کرنے کو تیار ہیں ۔ اس احتجاج کی قیادت کیلئے مسلم پرسنل لا بورڈ بھی آگے آگیا ہے ایسے میں نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کو اپنی حکمت عملی اور پالیسی پرنظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ وقف جائیدادوں کے تحفظ کیلئے مسلمانوں کا یہ احتجاج مزید شدت اختیار کرنے والا ہے ۔
وقف بل کے تعلق سے مسلمانوں میں جو شعور بیدار ہوا ہے وہ بی جے پی کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو رہا ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے میں پیچھے نہیں رہیں گے ۔ اسی طرح بی جے پی کی حلیف جماعتوں کو بھی اس کا احساس کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر اس صورت میںجبکہ ان کی انتخابی سیاست میںمسلمانوں کے ووٹوں کا بہت اہم رول ہوا کرتا ہے ۔ ایک طویل عرصہ تک خاموشی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مسلمان وقف بل کے تعلق سے شعور میں آچکے ہیں اور ان کی بیداری کے نتیجہ ہی میںیہ احتجاج شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ مزید احتجاجی پروگرامس آگے بھی منعقد ہونگے اور مسلمان اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں۔ آج جمعۃ الوداع کے موقع پر جس طرح مسلمانوں نے اپنے بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا اس سے ظاہر ہوا ہے کہ مسلمان اس مسئلہ پر خاموشی اختیار نہیں کریں گے اور اپنے حق کیلئے جدوجہد سے گریز نہیں کریں گے ۔ بی جے پی کو بھی اس احتجاج کی شدت کا احساس ہورہا ہے اور شائد اسی وجہ سے عید الفطر کے موقع پر مرکزی حکومت کی جانب سے مودی کی سوغات کے نام سے 32 لاکھ مسلمانوں کو کٹس تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن حکومت کو یہ بھی احساس ہونا چاہئے کہ ایک معمولی کٹ کے بدلے میں مسلمان اپنے آباء و اجداد کی وقف جائیدادوں سے دستبرداری اختیار نہیں کریں گے اورحکومت کے ہتھکنڈوں کا شکار ہوئے بغیر اپنے احتجاج کو آگے بڑھائیں گے ۔
ہندوستان کے مسلمانوںکو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ وہ بغیر جدوجہد کئے اپنے مفادات کا تحفظ نہیںکرپائیں گے کیونکہ حکومت ان کی جائیدادوں کو چھیننے کیلئے کمر بستہ ہوگئی ہے ۔ مسلمانوں کو دستور و قانون کے دائرہ میںرہتے ہوئے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنی چاہئے اور وہ اس کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کی فکر کریںا ور مسلمانوں سے ہمدردی کے دعووں کو حقیقت میں بدلتے ہوئے مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ متنازعہ وقف ترمیمی بل سے دستبرداری اختیار کرلے بصورت دیگر مسلمانوں نے جو احتجاج شروع کیا ہے وہ مزید شدت اختیار کرے گا ۔