ووٹر لسٹ میں ناموں کا اندراج اور NPRکی تیاری ،ایک ملی فریضہ! مولانا خالد سیف الله رحمانی

   

سیرت نبوی اکے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عہد میں اسلام کی تائید و تقویت اورمسلمانوں کے ملی وجود کی حفاظت کے لئے تمام اسباب اختیار کرنے چاہئیں ، جو اس زمانہ میں مروج ہوں اور ان میں شریعت کے خلاف کوئی بات نہ ہو، رسول اللہا کی حیات طیبہ میں بہ کثرت اس کی مثالیں موجود ہیں ، آپ ا نے دعوتِ توحید کے لئے پہلی دفعہ صفا کی پہاڑی کا انتخاب کیا اور وہاں جا کر اہل مکہ کو اکٹھا کر کے اپنی بات کہی ، یہ کوئی اتفاقی انتخاب نہ تھا ؛ بلکہ پہلے سے اہل مکہ کا طریقہ چلا آرہا تھا کہ کسی اہم بات کی اطلاع دینے کے لئے اسی مقام پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلاتے تھے، گویا یہ اس زمانے کا ذریعۂ ابلاغ تھا اور مکہ شہر کی حد تک اس سے زیادہ وسیع الاثر کوئی اور ذریعہ ابلاغ موجود نہیں تھا ، عرب میں دو ایسے اجتماعات ہوتے تھے، جن میں پورا جزیرۃ العرب امڈ آتا تھا ، ایک: حج، اور دوسرے: عکاظ کا تجارتی میلہ ، ان دونوں اجتماعات میں بہت سی منکرات اور فواحش کا ارتکاب کیا جاتا تھا ، حج میں تو بہر حال ایک پہلو عبادت کا بھی تھا ، گو حضرت ابراہیم ں کے اصل اسوہ میں بہت کچھ آمیزشیں کردی گئی تھیں ؛ لیکن عکاظ کے میلے کی نوعیت مذہبی نہیں تھی ، اس کے باوجود آپ ’کُل عرب سطح‘‘ کے ان دونوںاجتماعات میں جاتے اور لوگوں پر دعوت اسلام پیش فرماتے ، کیوںکہ اس وقت اس سے زیادہ موثر ، زود رفتار اور وسیع الاثر کوئی اور میڈیا نہیں تھا ۔

عربوں کاایک قدیم قبائلی نظام تھا، جس کے مطابق قبیلہ کے ایک شخص کو پورے قبیلہ کی پناہ حاصل ہوتی تھی اور اگر قبیلہ کے ایک شخص کے خلاف بھی کوئی زیادتی کی جاتی تو پورا قبیلہ اسے اپنے آپ پر حملہ تصور کرتا تھا، آپ بنو ہاشم میں تھے اور اس وقت اس قبیلے کی قیادت ابو طالب کے ہاتھ میں تھی ، جو آپ کے چچا تھے ؛ لیکن اولاد سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھتے تھے؛ اس لئے باوجودیکہ بنو ہاشم کی اکثریت ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھی اور ابو لہب جیسا بدترین دشمنِ اسلام اسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا ؛ لیکن اس کے باوجود ابوطالب کی وجہ سے آپ کو اس خاندان کی ایسی حمایت و حفاظت حاصل رہی کہ شعب ابی طالب جیسے دل گداز اور صبر آزما واقعہ میں بھی بنو ہاشم نے آپ ا کا ساتھ نہ چھوڑا اور عرب کے اس قبائلی پناہ دہی اور پناہ گیری کے نظام سے آپ نے بھرپور فائدہ اُٹھایا ، اسی طرح آپ کے سب سے جاں نثار رفیق حضرت ابوبکر صدیق صنے ابن الدغنّہ کی پناہ حاصل کرنے میں کوئی تکلف نہیں برتا ۔

مدینہ جانے کے بعد آپ ا نے مسلمانوں، یہودیوں اور مشرکین کے درمیان بقاء باہم اور مدینہ کے مشترکہ دفاع کا ایسا معاہدہ کرایا، جو اسلام کے سیاسی تصورات کے لئے نشانِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے؛ کیوںکہ اس معاہدہ کے مطابق مدینہ کے غیر مسلم قبائل کو عقیدہ و مذہب کی آزادی دی گئی ، ایک دوسرے کی جان و مال کے احترام کا سبق دیا گیا اور بوقت ضرورت غیر مسلموں کے ساتھ مل کر کسی علاقہ کی حفاظت اور دفاع کو قبول کیا گیا، اسی طرح فتح مکہ سے پہلے متعدد ایسے مشرک قبائل تھے، جو اس وقت تک اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے ، آپ ا نے ان سےناجنگ معاہدہ کیا ؛ بلکہ مشکل وقتوں میں بحیثیت حلیف ایک دوسرے کی مدد کرنے کے معاہدے بھی کئے ، بظاہر اسلام میں ’’ موالات ‘‘ وغیرہ کے سلسلہ میں جو احکام ہیں ، ہو سکتا ہے کہ بادیٔ النظر میں یہ معاہدات اس کے خلاف محسوس ہوں ؛ لیکن در اصل ان سب میں ایک ہی روح کار فرما ہے کہ ہر عہد کی ضرورت ، تقاضہ اور رسم و رواج کے مطابق اسلام کو سر بلند کرنے اور اُمت ِمسلمہ کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کہا کہ اعداء ِاسلام کے مقابلہ میں قوت بھر تیاری کرو : ’’وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ‘‘( الانفال : ۶۰) کیا اس کا مطلب صرف اسلحہ اورجنگی طاقت کا فراہم کرنا ہے ؟ غالباً ایسا نہیں ہے ؛ بلکہ ہر طرح کی طاقت اس میں داخل ہے ، کبھی علم کی طاقت ہتھیار کی طاقت پر فائق ہو تی ہے ، جس کی مثال آج جاپان ہے ،کبھی سیاسی طاقت کے ذریعہ قوموں کی تقدیر کے فیصلے ہو تے ہیں ، ہندوستان میں برہمن اِزم اس کا جیتا جاگتا نمونہ ہے ، کبھی معاشی طاقت کی بنیاد پر انگلیوں پر گنی جانے والی قوم پوری دنیا کو اپنے چشم و ابرو کا متبع بنا کر رکھتی ہے ؛ جیسا کہ اس وقت صیہونی طاقت کا حال ہے ، غرض کہ ہر عہد میں اس عہد کی ضرورت کے مطابق اپنی طاقت کو بڑھانا اس طاقت کو مذہب وملت کی سربلندی کے لئے استعمال کرنا اور ظالموں کے تسلط سے بچنے کے لئے اس کو ڈھال بنانا اُمت کا فریضہ اوررسول اللہا کا اُسوہ ہے ۔

آج کی دنیا میں معیار کے ساتھ ساتھ تعداد و مقدار کی بھی بڑی اہمیت ہے، اس سے کسی قوم کا سیاسی مقام متعین ہوتا ہے، نظام مملکت کے نقشہ میں اس کی اہمیت محسوس کی جاتی ہے، جو زبان کسی علاقہ میں بولی جاتی ہو ، اس زبان کی قدر و قیمت بھی بولنے والوں کی تعداد پر منحصر ہے ، اسی پس منظر میں تمام ہی ممالک میں اور خاص کر جمہوری ملکوں میں مردم شماری کو خاص اہمیت حاصل ہے ، ہندوستان میں۵ ۱؍اپریل ۲۰۲۰ء سے ۳۰؍اکتوبر ۲۰۲۰ء تک مردم شماری ہوگی، جس کو اس بار نیشنل پاپولیشن رجسٹر (NPR)کا نام دیا گیا ہے ، جس میں مذہب ، زبان اورمعاشی حالات کے علاوہ معذورین اور ان کے حالات بھی مرکز توجہ ہوں گے اور ان ہی اعداد و شمار کی روشنی میں ملک میں آئندہ سیاسی ، تعلیمی اور معاشی منصوبہ بندی ہو سکے گی ۔

اُردو ہماری مادری زبان ہے اور عربی زبان کے بعد کوئی زبان نہیں ، جس میں علوم اسلامی کا اتنا بڑا سرمایہ موجود ہو ؛ بلکہ بعض موضوعات پر اردو میں ایسی کتابیں بھی آچکی ہیں کہ شاید عربی میں بھی اس جیسی کتاب نہ ہو، فارسی حالاںکہ صدیوں سے مسلمانوں کی زبان ہے ، اورایک بہت بڑا ذخیرہ فارسی زبان میں ہے ؛ لیکن اردو نے صرف ڈیڑھ دو سو سال میں نہ صرف فارسی کی برابری حاصل کر لی ؛ بلکہ اسلامی فکر و عقیدہ ، علم و عمل اور تہذیب و ثقافت کی نمائندگی میں غالباً فارسی سے بہت آگے جا چکی ہے ، بد قسمتی سے آزادی کے بعد سے مسلسل اردو لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے اوراس لئے حکومت کوبھی اردو کی طرف سے دانستہ تغافل کابہانہ ہاتھ آرہا ہے ، مردم شماری میں اگر ہم اہتمام کے ساتھ مادری زبان کی حیثیت سے اُردو کا نام لکھائیں اور اعداد و شمار اس بات کو واضح کر دیں کہ اُردو بولنے، سمجھنے ، لکھنے اورپڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، تو اس سے ہمیں اپنی زبان کی حفاظت میں سہولت بہم پہنچے گی اور ہماری اگلی نسلوں کو اپنے سلف کے اتنے عظیم الشان علمی اوردینی سرمایہ سے محروم نہیں کیا جاسکے گا ۔

NPRسے پہلے ووٹر لسٹ میں اپنے ناموں کے اندراج کا اور اس کی اغلاط کی تصحیح کا مرحلہ ہے، جو چل رہا ہےاور ۳۰ءنومبر ۱۹ء تک یہ کام جاری رہے گا، جمہوری ملک میں ووٹ عوام کی بہت بڑی طاقت ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ووٹر لسٹ میں ہمارا نام درج ہو؛ اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حالات میں ووٹر لسٹ میں اندراج اور NPR(مردم شماری) میں حصہ لینا مسلمانوں کا ایک اہم ملی فریضہ ہے اور یہ اپنے حقوق کی حفاظت اور حق تلفی کی مدافعت کی بے جا سازشوں کی ایک آئینی تدبیر ہے ، اگر آئندہ حکومت نے NRCکو پورے ملک میں نافذ کیا تو اس میں بھی اس سے فائدہ ہوگا، اگر ہم نے اس موقع پر غفلت کی اور کوتاہی سے کام لیا تو خاص کر موجودہ حالات میں یہ بہت ہی نقصان کی بات ہوگی اور اپنی طاقت کے ضائع کرنے اوراپنی قیمت آپ گرانے کے مترادف ہوگا ۔

یوں بھی مردم شماری کا تصور بہت قدیم ہے ؛ چوںکہ اس سے عوام کے مسائل کو سمجھنے اورخاص کر عوام کے مسائل کا جائزہ لینے میں مدد ملتی ہے ، بائبل میں ہے کہ ’’ پہلی اسم نویسی سوریا کے حاکم رکوِرِنِیسُ کے عہد میں ہوئی اور سب لوگ نام لکھوانے کے لئے اپنے اپنے شہر کو گئے‘‘ ( نوما: ۲ ؍۲،۳) یہ واقعہ حضرت مسیح ںکی ولادت سے پہلے کا ہے ، غالباً اس کا تعلق سلطنت روما یا یہودا کی آبادی سے ہے ، مردم شماری تو اس سے پہلے بھی ہوئی ہوگی ؛ کیوںکہ بائبل کے عہد عتیق میں بھی مختلف موقعوں پر مختلف قوموں کے اعداد و شمار مذکور ہیں ، رسول اللہ ا نے بھی مدینہ میں مردم شماری کرائی تھی اور اس کا ذمہ دار حضرت حذیفہ ص کو بنایا تھا ، حضرت حذیفہص ہی راوی ہیں کہ آپ ا نے ارشاد فرمایا : میرے لئے ان تمام لوگوں کے نام لکھو ، جنھوں نے اسلام کا اقرار کیا ہے : ’’ اکتبوا لی من تلفظ بالاسلام من الناس‘‘حضرت حذیفہ صنے شمار کیا تو اس وقت یہ تعداد پندرہ سو نکلی (بخاری ، حدیث نمبر : ۳۰۶۰) بظاہر یہ تعداد صلح حدیبیہ کے کچھ آگے یا پیچھے کی ہوگی ، صحابہ ث نے فتح مکہ کے مجاہدین کی تعداد بھی بیان فرمائی ہے اور بعض روایتوں میں حجۃ الوداع کے موقع سے شرکاء کی تعداد جو ایک لاکھ سے کچھ اوپر تھی ، مذکور ہوئی ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہا کے زمانہ میں اعداد و شمار کے اکٹھا کرنے پر نظر رکھی جاتی تھی، خلافت راشدہ میں خاص کر حضرت عمرصکے عہد میں بھی مختلف شہروں کے اعداد و شمار ملتے ہیں، مدینہ میں آباد لوگوں کے لئے تو آپ نے مستقل رجسٹر ہی مرتب کرا رکھا تھا اور اسی رجسٹر کے مطابق حسب ِمراتب اور حسب ِخدمت مال غنیمت اورباہر سے آنے والی اِعانتیں تقسیم کی جاتی تھیں ، بعد کو بھی مسلمانوں کے دور میں مردم شماری کا سلسلہ رہا ہے؛ اسی لئے تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے پس منظر میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت اس بہار آفریں شہر کی آبادی ایک لاکھ سے کچھ اوپر تھی ۔

اپنی قوت کا اظہار اسلام کی نگاہ میں کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ اس سے کبر کی بوآتی ہے ؛ لیکن بعض دفعہ قومی اور ملی مصالح کے تقاضہ کے تحت یہی ناپسندیدہ بات پسندیدہ قرار پاتی ہے ، غور کیجئے کہ جب رسول اللہ ا صلح حدیبیہ کے دوسرے سال عمرۃ القضاء کے لئے تشریف لے گئے اور مشرکین — جن کی نظر ایمانی اور روحانی قوت کے بجائے صرف جسمانی قوت پر ہوتی تھی — نے مسلمانوں کے تواضع اور انکسار کو دیکھتے ہوئے ان کے کمزور ہونے کا طعنہ دیا ، تو آپ ا نے مسلمانوں کو کسی قدر اکَڑ کر طواف کرنے کا حکم فرمایا ، جو آج تک ’’ رمَل‘‘ کے نام سے حج کی ایک اہم ترین سنت ہے، فتح مکہ کے موقع سے اہل مکہ کو مرعوب کرنے اور قائد مشرکین ابو سفیان کو متأثر کرنے کی غرض سے آپ نے ایک خاص ترتیب سے مختلف قبائل کے الگ الگ فوجی دستے مرتب فرمائے اور ایک تنگ وادی سے جوش ایمان سے معمور اور جذبہ جہاد سے بھرپور قافلہ کو گذارا، نیز حضرت عباس ص کے ذریعہ ایسی تدبیرکرائی کہ ابو سفیان کوپھٹی آنکھوں اس لشکر ِجرار اور اس کے ہمت و حوصلہ اورجذبۂ و جوش کو دکھلایا ؛ تاکہ اہل مکہ کو مقابلہ کی ہمت نہ ہو اور وہ کسی مزاحمت کے بغیر اسلام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیں ، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ کی شب خاص طور پر آپ نے مسلمانوں کی فوج کو دور دور تک بکھر جانے، زیادہ سے زیادہ چولھے سلگانے اور کھانے پکانے کا اشارہ بھی دیا ؛ تاکہ جب رات کی تاریکی میں مشرکین مکہ تاحد نگاہ اس لشکر کے چولہوں کو دیکھیں اور عربوں کے طریقہ کے مطابق چولہوں کی تعداد کے مطابق افراد کا اندازہ کریں تو ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور ان کی ہمتیں شکستہ ہو جائیں ، ان تدبیروں کا مقصد کبر اور اپنی برتری جتانا نہیں تھا ؛ بلکہ یہ اس وقت کی مصلحت تھی اور اسے اسلام کی تائید و تقویت اورمسلمانوں کی حفاطت کے ایک مؤثروسیلہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا ۔

پس ہر دور میں اپنی قوت بڑھانے ، اپنی طاقت کا اظہار کرنے اور اپنے حقوق کی حفاطت اور اپنے قومی وجود کا دفاع کرنے کے الگ الگ ذرائع ہوتے ہیں ، اس دور میں ان ہی ذرائع کو اختیار کرنا حکمت ، فراستِ ایمانی اور اسوۂ نبوی کا تقاضا ہے !