وہ بھی کامیاب ہوتا ہے جو اردو سے پڑھتا ہے

   

محمد مصطفی علی سروری
ارے نہیں بھائی صاحب رہنے دو۔ میں سمجھ رہا تھا کہ یہ مولانا آزاد کے نام سے قائم یونیورسٹی ہے مگر آپ تو بتلارہے ہیں۔ وہاں پر ساری پڑھائی اردو میں ہوتی ہے۔ تعجب ہے آج کے دور میں جب بڑے بڑے کالجس اور یونیورسٹیوں سے پڑھنے کے بعد انجینئرس کو نوکری نہیں مل رہی ہے اور آپ بتارہے ہیں کہ اردو میڈیم سے پڑھ کر بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
معاف کیجیے گا۔ میں اپنے بچوں کا مستقبل خراب کرنا نہیں چاہتا ہوں۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں داخلوں کے متعلق شعور بیداری مہم کے ایک پروگرام میں ایک صاحب بڑی دور سے تشریف لائے اور اپنے بچوں کو کسی پروفیشنل کورس میں داخلہ کے متعلق پوچھنے لگے اور جب انہیں پتہ چلا کہ یونیورسٹی کا نام تو مولانا آزاد کے نام سے ہے مگر یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم مکمل طور پر اردو میں ہے تو انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ نظام کا دور چلا گیا اور ان کی قائم کردہ عثمانیہ یونیورسٹی سے بھی اردو میڈیم ختم ہوگیا۔ اب اردو کی یونیورسٹی میں تعلیم کیسی ہوتی کی؟

قارئین جو لوگ اردو میڈیم کی تعلیم پر سوال اٹھاتے ہیں دراصل وہ لوگ اپنی کم علمی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ جی ہاں۔ یہ سچ ہے کہ آج بڑی اور مشہور یونیورسٹیوں سے انجینئرنگ کا کورس کرنے کے بعد بھی انجینئرس بے روزگار ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے وہ بھی اردو میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبہ صرف سرکاری شعبہ نہیں بلکہ خانگی شعبے میں بھی روزگار حاصل کر رہے ہیں۔

صرف اردو یونیورسٹی سے پڑھنے والے طلبہ نہیں بلکہ ملک بھر میں دیگر مقامات پر بھی اردو میڈیم سے پڑھ کر طلبہ نمایاں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک خبر دارالحکومت دہلی سے سامنے آئی ہے۔ 2؍ مئی 2019ء کو سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن (CBSE) نے بارہویں جماعت کے نتائج کا اعلان کردیا اور اطلاعات کے مطابق دہلی کے سرکاری اسکولس میں بارہویں جماعت کے امتحان میں ثنا نیاز نے 97.6 فیصد نشانات حاصل کرتے ہوئے سب سے ٹاپ پوزیشن حاصل کی اور قارئین سب سے اہم نکتہ اس خبر کا یہ تھا کہ ثنا نیاز اردو میڈیم کی طالبہ ہے۔ جی ہاں۔ ثنا نیاز نے سروودیا کنیا ودیالیہ نمبر 2 اسکول جو جامعہ مسجد دہلی کے قریب ہے سے اردو میڈیم سے پڑھ کر ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔
India Tomorrow کے نمائندے تنظیم حیدر نے 3؍ مئی کی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ثنا نیاز کی عمر 17 سال ہے۔ وہ آگے پڑھ کر ایک آئی اے ایس آفیسر بننا چاہتی ہے۔ ثنا نے چونکہ اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے دہلی میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی تو تنظیم حیدر نے اس لڑکی سے سوال کیا کہ وہ اردو میڈیم سے پڑھ کر بھی ٹاپ پوزیشن کیسے حاصل کرسکی۔ اس سوال کے جواب میں ثنا نے بتلایا کہ ہاں مجھے سو شیالوجی کی کتابیں اردو میں دستیاب نہیں تھی لیکن میں نے آن لائن مواد نکالا اور ساتھ ہی انگلش و ہندی میں پڑھ کر اپنے امتحان کی تیاری کرتی رہی۔ اپنی پڑھائی کی روٹین کے متعلق ثنا نے بتلایا کہ اس نے اپنے دن بھر کا ٹائم ٹیبل بنا رکھا تھا۔ پڑھائی کے لیے وقت مقرر تھا اور ساتھ میں کب آرام کرنا ہے اس کا بھی وقت مقرر تھا۔ ’’اگر میں دو گھنٹے مسلسل پڑھتی تو پھر ایک گھنٹہ کا وقفہ لے لیا کرتی تھی۔ تاکہ میرے دماغ کی تازگی برقرار رہے۔‘‘ ثنا اپنے نوٹس روزانہ تیار کرلیتی تھی اور اسکول سے گھر آکر پڑھنا بھی اس کا معمول تھا۔
دہلی کے سرکاری اسکول سے پڑھنا اور وہ بھی اردو میڈیم سے پڑھ کر کامیابی حاصل کرنا اور پھر سارے سرکاری اسکولس میں سب سے ٹاپ پوزیشن حاصل کرنا کتنا بڑا کارنامہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سیسوڈیا نے خود فون کر کے ثنا نیاز اور ان کے والدین کو مبارکباد دی۔
ثنا کی عمر تو اگرچہ صرف 17 برس ہے لیکن اردو میڈیم کی اس ٹاپر نے India Tomorrrow کے نمائندے کو بتلایا کہ کسی بھی گھر میں لڑکی تنہا نہیں پڑھتی ہے بلکہ اس کے ساتھ اس کا پورا گھر پڑھتا ہے۔ اور جب ثنا گھر کی بات کرتی ہے تو یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ثنا کے گھر میں اور کون کون رہتے ہیں، اور اس کا گھر کیسا ہے۔ اخبار انڈین ایکسپریس نے 4؍ مئی 2019 کو ثنا نیاز سے انٹرویو کیا اور اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ثنا نیاز کے والد دہلی کے علاقہ مٹیا محل میں واقع ایک ہوٹل میں باورچی کا کام کرتے ہیں۔ او ر والدہ گرہست خاتون ہیں۔ ثنا کے والدین نے خود آٹھویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو پانچ اولادوں سے نوازا اور پانچ کی پانچ لڑکیاں ہیں۔ ثنا سے بڑی تین بہنیں ہیں ا ور تینوں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور چھوٹی بہن بھی ثنا کی طرح اردو میڈیم کے گورنمنٹ اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ ثنا اور اس کی بہنیں اپنے خاندان کی اس پہلی نسل سے تعلق رکھتی ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں ثنا کس طرح کے گھر میں رہتی اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ثنا کا گھر مٹیا محل کی تنگ گلیوں سے ہوکر آتا ہے اور اس گھر میں ثنا اور اس کے والدین ہی نہیں رہتے بلکہ ثنا کے والد اپنے تین بھائیوں کے ساتھ رہتے ہیں تو ثنا بھی اسی مشترکہ خاندان کے گھر میں رہتی ہیں۔ ثنا کے اسی چھوٹے سے گھر کے کمرے میں کانچ کا ایک شوکیس بھی رکھا ہے جس میں ثنا نیاز کی بہت ساری ٹرافیاں اور انعامات رکھے ہوئے ہیں جو ثنا نے اپنے 12 سال کے تعلیمی کیریئر کے دوران جیتی تھیں۔ ثنا نے بہترین تعلیمی مظاہرے کے لیے کبھی ٹیوشن بھی نہیں لیا۔ وہ کہتی ہے کہ میری بڑی بہنیں گھر میں تھیں اور مجھے جب بھی مددکی ضرورت پڑتی میں ان سے لے لیتی۔
ثنا نیاز کی والدہ اسماء پروین کہتی ہیں کہ اس کے شوہر لڑکیوں کو آگے پڑھانے کے لیے آمادہ نہیں تھے اور خود ہمارے رشتہ دار کہتے تھے کہ لڑکیاں اگر زیادہ پڑھ لیں گی تو پھر بگڑ جائے گی کیونکہ ہماری گلیوں سے کوئی بھی لڑکی پڑھائی کرنے کالج نہیں جاتی ہے۔ لیکن ثنا نیاز کے والدہ اپنی لڑکیوں کی پڑھائی کے لیے اتنی فکر مند تھی اور اسکول کے اتنے زیادہ چکر لگایا کرتی تھی اور بار بار ٹیچرس سے جاکر ملا کرتی تھی کہ اسماء پروین کو اسکول مینجمنٹ کمیٹی کا چیئرپرسن بنادیا گیا ہے۔
ثنا نے انڈین ایکسپریس کو بتلایا کہ اس کی کامیابی میں گھر والوں کے ساتھ اس کے اسکول کی ٹیچرس کا بھی بہت بڑا رول ہے۔ قارئین ثنا کی کامیابی کا ایک اور راز اس کی ایک بہن نے انڈین ایکسپریس کو بتلایا کہ ثنا نے اپنے آپ کو ہمیشہ پڑھائی میں مگن رکھا۔ وہ ہمارے ساتھ باہر بھی نہیں جاتی تھی۔ اس کو تو ہمارے محلے کی سب گلیوں کا بھی صحیح پتہ نہیں ہے اور ثنا تو ہمارے ساتھ نہ کسی شادی میں جاتی تھی اور نہ کسی تقریب میں۔ وہ کہتی تھی کہ دعوتوں سے اس کا ٹائم ٹیبل بگڑ جاتا ہے۔ ثنا کی ایک اور خاص بات کیا تھی اخبار نے لکھا کہ جس مضمون میں ثنا کو اردو میں کتابیں نہیں ملی تھی وہ سوشیالوجی کا سبجیکٹ تھا اور ثنا نے اپنے طور پر خود ہی نوٹس تیار کر کے امتحان میں شرکت کی اور اس مضمون میں بھی 98 فیصدی نشانات حاصل کیے۔ ثنا نے بارہویں کے امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد بتلایا کہ اب وہ دہلی کے مشہور ڈگری کالج سینٹ اسٹیفن سے بی اے کرنے کی خواہشمند ہے۔ یہ دہلی کا وہ باوقار کالج ہے جہاں داخلہ کے لیے ملک کے طلبہ برسوں خو اب دیکھا کرتے ہیں۔ جہاں سے پڑھ کر ترقی کرنے والوں میں کپل سبل، ششی تھرو ر اور برکھادت کے نام لیے جاتے ہیں۔
ثنا نیاز کی کامیابی ثابت کرتی ہے کہ اردو میڈیم سے تعلیم نہ صرف طلبہ کو آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے بلکہ جن کی مادری زبان اردو ہے ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔
قارئین یہ تو اردو میڈیم کے سرکاری اسکول سے پڑھ کر بارہویں میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والی ثنا نیاز کی کہانی تھی۔ اب میں اپنے اس موضوع پر آتا ہوں جو اکثر والدین اور سرپرست پوچھا کرتے ہیں کہ اردو سے پڑھنا اور پڑھ کر اول آنا ایک بات ہے لیکن آج کے دور کا سب سے اہم سوال کہ وہ تعلیم ہی کیا سودمند ہے جو طلبہ کو روزگار نہ دلاسکے؟ کیا تعلیم کا واحد مقصد صرف حصول روزگار ہے۔ اس بحث میں پڑے بغیر اب میں واضح اعداد و شمار کے ذریعہ اس بات کا ثبوت پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اردو سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اردو میڈیم کا فارغ طالب علم جاب مارکٹ میں بھی کامیابی سے اپنے قدم جمارہے ہیں۔

محمد نہال احمد نے سال 2018ء میں مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے بی ٹیک کا کورس مکمل کیا۔ نہال کا قطر کی ایک کمپنی میں تقرر ہوگیا۔ تنویر بیگم نے سال 2018ء میں ایم بی اے کا کورس اردو میڈیم سے پاس کیا اور اس لڑکی کو ٹیکنالوجی کی کمپنی Tech Mahindra میں وہ بھی حیدرآباد میں جاب مل گئی۔ محمد عارض نے سال 2018ء میں ہی اردو یو نیورسٹی سے پالی ٹیکنیک کا کورس مکمل کیا۔ اس لڑکے کو الورقہ سروے انجینئرنگ کمپنی، دوبئی میں ملازمت مل گئی۔
محمد عاطف خان نے اردو یونیورسٹی ایم سی اے کیا اور انہیں اسی برس حیدرآباد کی کمپنی (Genpact) میں ملازمت مل گئی۔ شاہد جمال نے اردو یونیورسٹی سے ایم اے عربک کا کورس کیا اور انہیں Amazon کمپنی میں جاب ملی۔یہ تو صرف اسی برس کی چند مثالیں ہیں۔
اردو کے نام پر چڑنے والے مسلمان پوچھتے ہی رہ گئے کہ اردو میں پڑھ کر کیا ہونے والا ہے؟ لیکن وینکٹیش ایم کو اردو یونیورسٹی سے آئی ٹی آئی کرنے کے بعد قطر کی ایک کمپنی میں جاب مل گئی۔
اردو یونیورسٹی کے ڈپلوما ان انجینئرنگ کے کورسس کی مقبولیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کورسز میں جتنی سیٹیں ہیں ان سے کہیں زیادہ امیدواروں نے درخواستیں داخل کیں اور 5 مئی 2019تک کے اعداد و شمار کو ملاحظہ کریں تو پتہ چلے گا کہ 1316 امیدواروں نے صرف ڈپلوما ان انجینئرنگ میں داخلہ کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ دیگر کورسز میں داخلہ کے خواہشمند درخواست گزاروں کی تعداد 8 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
قارئین کرام ہر فرد ہر موضوع پراپنی رائے رکھ سکتا ہے۔ میں نے بھی اپنی رائے پیش کی ہے کہ اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کر کے کامیابی بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور رو زگار بھی؟ اور ذرا ترقی یافتہ اقوام کے ایجوکیشن سسٹم کا آپ تجزیہ کرلیں۔ جاپان، چین، فرانس، جرمنی اور روس ترقی یافتہ اقوام ہیں اور ان کا ذریعہ تعلیم ان کی اپنی مادری زبان میں ہے۔ ذرا سونچئے ا اور غور کیجیے گا۔ کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ رزق کے دینے والی ذات اللہ کی ہے۔ اور کامیابی اس کو بھی ملتی ہے جو اردو سے پڑھتا ہے کیونکہ کامیابی دینے والی ذات خدائے تعالیٰ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا ایمان درست کرنے والا بنادے۔ (آمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com