ٹائم نے دنیا کے 100بااثر لوگوں میں شاہین باغ کے دادی کا نام شامل کیا

,

   

ایک احتجاج کے دوران بلقیس نے کہاکہ ”میں اپنی رگوں میں خون کے آخری خطرہ تک یہاں پر بیٹھوں گی تاکہ اس ملک اور دنیاکے بچے انصاف اور مساوات کی ہوا میں سانس لے سکیں“

نئی دہلی۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کے دوران نوجوانوں کے لئے حوصلہ بنانے والے شاہین باغ کی دادیوں تحریک میں شدت پیدا کرنے کاذریعہ بنی ہیں۔

ایک 82سالہ دادی بلقیس جو شاہین باغ میں احتجاج کا چہرہ بنی ہیں ٹائم میگزین نے 2020میں دنیا کے بااثر لوگوں“ کی فہرست میں ان کا نام شامل کیاہے۔

کئی مہینوں تک عارضی طور پر تیار ایک خیمہ میں کیمپ کرتے ہوئے شاہین باغ کے احتجاج کی قیادت دادیوں نے کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ متنازعہ سی اے اے قانون کو برخواست کرے۔

صحافی رانا ایوب نے ٹائمز میگزین میں لکھے ایک مضمون میں صحافی رانا ایوب بتاتی ہیں کہ کس طرح بلقیس پسماندہ لوگوں کی ایک آواز بنی ہیں اور کس طرح ایک 82سالہ خاتون نے سی اے اے کی حمایت میں منعقدہ احتجاج سے دہلی کی کڑکڑتی سردی اور دھمکیوں کے باوجود احتجاج کے مقام سے ہٹنیسے انکارکردیاتھا۔

رانا ایوب نے لکھا کہ”جب میں پہلی مرتبہ بلقیس سے ملاقات کی وہ ہجوم کے درمیان میں بیٹھی ہوئی تھیں‘ ان کے اطراف میں نوجوان عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں جو انقلاب کے نعروں پر مشتمل پلے کارڈس ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے۔

ان کے ایک ہاتھ میں تسبیح کی مالا اور دوسرے ہاتھ میں ترنگا تھا‘ ہندوستان کے پسماندہ لوگوں کی بلقیس آواز بن گئی تھیں‘ایک 82سالہ جو احتجاج کے مقام پر صبح 8بجے سے نصف رات تک بیٹھی ہوئی ہیں“۔

رانا ایوب نے مزیدکہاکہ ”ڈسمبر میں وزیراعظم ہند نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون کو منظوری دی جانے کے بعد سے وہ یہاں احتجاج پر بیٹھی ہوئیں ہیں‘ جو مسلمانوں کو شہریت فراہم کرنے سے روکتا ہے‘ انہوں نے سخت سردیوں میں بھی اپنے احتجاج کو جاری رکھا۔

شاہین باغ کے احتجاج میں شامل ہونے والی ہزاروں عورتوں کے ساتھ بلقیس ملک میں مزاحمت کا نشان بن گئیں‘ جہاں پر عورتوں اور اقلیتوں کی آوازوں کو منظم انداز میں دبانے کاکام مودی دور میں اکثریتی سیاست کی جانب سے کیاجارہا ہے۔

عامرایت کی طرف گامزن جمہوریت کے خلاف آواز اٹھانے پر سلاخوں کے پیچھے ڈال جارہاتھا ان طلبہ قائدین اور جہدکاروں کے لئے بلقیس امید اورحوصلہ بن کر سامنے ائیں‘ اور ساری ملک میں شاہین باغ کے طرز پر احتجاج کی راہ دیکھائی“۔

ایوب نے اپنامضمون کے اختتام پر لکھا کہ”انہوں نے منفرد انداز میں مجھ سے کہا: میں اپنی رگوں میں خون کے آخری خطرہ تک یہاں پر بیٹھوں گی تاکہ اس ملک اور دنیاکے بچے انصاف اور مساوات کی ہوا میں سانس لے سکیں“۔

بلقیس اس تسلیم کی حقد ار ہے تاکہ دنیاعامرایت کے خلاف مزاحمت کی طاقت کو سمجھ سکے“