ٹاملناڈو ۔ مرکز اختلاف مزید گہرا ؟

   

مرکزی حکومت اور ریاست ٹاملناڈو کے مابین اختلافات مزید گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کے کچھ اقدامات پر ٹاملناڈو کو شدید اعتراضات ہیں۔ ہندی کو مسلط کرنے کی کوششوں پر کچھ وقت سے ہی یہ اختلافات چل رہے تھے ۔ حالیہ عرصہ میں یہ مزید شدت اختیار کر گئے ہیں۔ جب مرکزی حکومت کی جانب سے آبادی کی بنیادوں پر پارلیمانی حلقہ جات کی حد بندی کا منصوبہ بنایا گیا تو ٹاملناڈو نے اس پر بھی شدید اعتراض کیا ۔ اس کا کہنا تھا کہ اس بنیاد پر اگر حد بندی کی جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں جنوبی ہند کی ریاستوں سے نا انصافی ہوگی ۔ پارلیمنٹ میں پہلے ہی شمالی ہند کی اور وسطی ہندوستان کی ریاستوں کا عددی طاقت کی بنیاد پر غلبہ ہے اور اگر آبادی کے حساب سے حد بندی کی جائے تو یہ غلبہ اور بھی زیادہ ہو جائے گا ۔ چیف منسٹر ٹاملناڈو ایم کے اسٹالن اس معاملے میں انتہائی جارحانہ موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ جنوبی ہند کی ریاستوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب رہے ہیں اور انہوں نے جنوبی ہند کے چیف منسٹروں کا ایک اجلاس بھی چینائی میںمنعقد کیا ۔ حالانکہ چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو کو بھی مرکز کے اس اقدام پر تشویش لاحق ہے لیکن وہ چونکہ این ڈی اے کا حصہ ہیں اس لئے وہ اسٹالن کے اجلاس میںشریک نہیں ہوئے ۔ وہ آندھرا پردیش میں آبادی میں اضافہ کی وکالت کر رہے ہیں اور ان کی ریاست میں تیسرے بچے کی پیدائش پر پچاس ہزار روپئے نقد انعام کا بھی اعلان کیا گیا ہے ۔ اس دوران مرکز اور ٹاملناڈو کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات و تنقیدوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہ معاملہ مرکز اور جنوبی ریاستوں یا خاص طور پر ٹاملناڈو کے درمیان ہے ۔ ایسے میں اب اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ بھی کود پڑے ہیں اور انہوں نے ایم کے اسٹالن کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹالن ملک میں زبان اور علاقائی بنیادوں پر بانٹنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی یہ تنقید انتہائی مضحکہ خیز ہے اور یہ بالکل غیر ضروری بھی کہی جاسکتی ہے ۔
سارا ہندوستان بلکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ بی جے پی اور خاص طور پر آدتیہ ناتھ عوام میں کس طرح زہر گھولتے ہیں۔ عوام میں مختلف بنیادوں پر تفریق پیدا کی جاتی ہے ۔ انہیں مذہب کے نام پر بانٹا جاتا ہے ۔ کبھی شمشان اور قبرستان کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو کبھی عید اور دیوالی کی بات کہی جاتی ہے ۔ کبھی مساجد کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی قبرستانوں اور درگاہوں کو مسمار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ سماج میں یہ تفریق بی جے پی کا طرہ امتیاز ہے ۔ بی جے پی ہر مسئلہ کو مذہبی رنگ سے جوڑنے میں مہارت رکھتی ہے اور اس کے ہاتھ میں ملک کا سارا گودی اور تلوے چاٹنے والا میڈیا اس کو مزید شدت کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے سماج میں نراج کی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ آدتیہ ناتھ اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔ وہ مسلم خواتین کی عصمت ریزی کرنے کی بات کرتے ہیں اور انہیں ہلاک کرنے کی دھمکیاں بھی مختلف گوشوں سے دی جاتی ہیں۔ ایسی اوچھی اور گندی سیاست کرنے والے آدتیہ ناتھ ٹاملناڈو کو اگر نشانہ بناتے ہیں تو یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہی ہوگی ۔ پہلے خود کے ریکارڈ کو دیکھنے کی اور اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ پہلے اپنی ریاست میں حالات کو بہتر بنانے اور سماج میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تب کہیں جا کر وہ دوسروں پر تنقید کر سکتے ہیں۔ اترپردیش میں جس طرح سماج میں دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں وہ ملک میں سب سے عیاں ہے ۔ سارا ملک اس حقیقت سے واقف ہے ۔
جہاں تک ٹاملناڈو کی بات ہے تو وہ اپنے علاقائی کلچر ‘ اپنی زبان اور اپنے حق کا تحفظ کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے ۔ سارے جنوبی ہندوستان کے حقوق کی بات کی جا رہی ہے اور مرکزی حکومت سے قانونی اور دستوری دائرہ میں رہتے ہوئے نمائندگی کی جارہی ہے ۔ اختلاف رائے کیا جا رہا ہے ۔ اس کو سماج میں دوریاں پیدا کرنے کی کوشش قرار دینا مضحکہ خیز ہے ۔ اترپردیش میں جس طرح کے حالات ہیں ان کو سدھارنے پر یوگی کو توجہ دینی چاہئے نہ کہ مرکز ۔ ٹاملناڈو اختلافات کو مزید گہرے اور شدید کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ٹاملناڈو کی جدوجہد حقوق کے تحفظ کیلئے ہے اور وہ اس معاملے میں حق بجانب ہے ۔