(حرمت والے مہینوں کو ) ہٹا دینا تو اور اضافہ کرنا ہے کفر میں۔ گمراہ کیے جاتے ہیں اس سے وہ لوگ جو کافر ہیں حلال کردیتے ہیں ایک ماہ کو ایک سال اور حرام کردیتے ہیں اسی کو دوسرے سال تاکہ پوری کریں گنتی ان مہینوں کی جنھیں حرام کیا ہے اللہ نے تاکہ اس حیلہ سے حلال کرلیں جسے حرام کیا ہے اللہ نے۔ (سورۃ التوبہ : ۳۷)
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد سے سال کے یہ چار مہینے حرمت اور عزت والے شمار ہوتے تھے اور ان میں لڑائی کرنے کی سخت ممانعت کر دی گئی۔ ان کا پیشہ قَزّاقی، رہزنی اور ماردھاڑ بن کر رہ گیا تھا۔ تین ماہ تک متواتر (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم) ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنا ان کے لئے ناقابل برداشت تھا اس لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان مہینوں میں سے جس کو چاہا حلال کر لیا اور اس میں جی بھر کر قتل و غارت کی اور اس کی جگہ سال کے کسی دوسرے مہینہ کو حرام کر دیا۔ نیز حج علاوہ ایک عبادت کے ان کے لیے ایک بہت بڑا تجارتی میلہ بھی تھا۔ دور دراز سے تجارتی قافلے آتے جس سے انہیں بہت نفع ہوتا لیکن حج کا فریضہ کیونکہ قمری سال کے ذی الحجہ کے مہینہ میں ادا کیا جاتا تھا اس لیے یہ ایسے موسم میں بھی آجاتا جب کہ سخت سردی یا گرمی ہوتی اور موسم کی اس ناسازگاری کی وجہ سے ان کا کاروبار ماند پڑجاتا اور انہیں دلخواہ نفع نہ ہوتا۔ اس مشکل کا حل انھوں نے یہ تجویز کیا کہ حج ہمیشہ معتدل موسم میں ادا کیا جائے اس کے لیے انھوں نے حج کی مقررہ تاریخوں کو بدل دیا اور قمری سال کے بارہ مہینوں میں کبیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیا اس طرح تینتیس سال کے بعد صرف ایک بار حج اپنی صحیح تاریخوں ۹ ، ۱۰ ذی الحجہ کو ادا کیا جاتا۔