پارلیمنٹ ‘ عمارت نئی ‘ سوچ گھٹیا

   

گذشتہ دنوں سارے ملک میں اس بات کی تشہیر کی جا رہی تھی کہ ملک کی پارلیمنٹ نے ایک نئی عمارت میں کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ پرانی عمارت کے 75 برس کی تکمیل پر وہاں کی کچھ یادیں اور اب تک کئے گئے کاموں کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا ۔ قدیم عمارت میں منظور کئے گئے قوانین کو بھی یاد کیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ نئی عمارت میں کام کاج کا آغاز ہوتے ہی خواتین تحفظات بل کی پیشکشی عمل میں آئی اور اسے دونوں ہی ایوانوں میں منظور بھی کروایا گیا ۔ ملک کے چاند مشن چندریان 3 کی کامیابی پر ایوان میں مباحث بھی ہوئے ۔ تاہم ان مباحث کے دوران بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوری نے اپنی ایک تقریر میں استعمال کئے گئے الفاظ اور مسلمانوں کے خلاف ان کی گھٹیا سوچ کا اظہار کرتے ہوئے ایک طرح سے اس عمارت کو پہلے ہی علامتی اجلاس میں داغدار کردیا ہے ۔ رمیش بدھوری نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ صرف بی جے پی کیلئے نہیں بلکہ سارے ملک کیلئے باعث شرم ہیں۔ اس سے ان کی انتہائی گری ہوئی اور گھٹیا سوچ کا پتہ چلتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی نے کس طرح کی ذہنیت رکھنے والوں کو پارلیمنٹ کے ایوان تک پہونچا دیا ہے جبکہ یہ لوگ ملک کے کسی نکڑ اور کسی چورا ہے پر صفائی کرنے کی بھی اہلیت نہیںرکھتے ۔ جو ریمارکس انہوں نے بی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کے خلاف استعمال کئے ہیں وہ صرف دانش علی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ یہ سارے مسلمانوں کے تئیں ان کی گھٹیا سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ کنور دانش علی ان الفاظ کے استعمال سے مغموم نظر آئے اور انہوں نے اپنے رویہ سے اس کا اظہار بھی کیا ہے لیکن کنور دانش علی کو اس ایوان کا حصہ بنے رہنے سے انکار کردینا چاہئے تھا جس میں رمیش بدھوری جیسے لوگ بھی موجود ہوتے ہوں۔ انہیں اپنی ایوان کی رکنیت سے استعفی پیش کردینا چاہئے تھا ۔ یہی ان کا اخلاقی رد عمل ہونا چاہئے تھا جو انہوں نے نہیں کیا ۔ تاہم جہاں تک بی جے پی کی بات ہے تو اس نے تو کسی بھی حد تک گرجانے کے باوجود کبھی شرم محسوس نہیں کی اور اس طرح کے لوگوں کی ممکنہ حد تک حوصلہ افزائی ہی کی گئی ہے ۔ ایسی زبان بولنے اور ایسی سوچ رکھنے والوں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔
اس معاملہ میں جتنے ذمہ دار رمیش بدھوری ہیں اتنے ہی ذمہ دار اس وقت ایوان کی کارروائی چلانے والے اسپیکر بھی ہیں۔ انہوں نے ساری گالی گلوچ اور بدکلامی کے دوران ایک مرتبہ بھی بدھوری جیسے بیہودہ انسان کو روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ اس کی زبان اور گالیوں پر افسوس کا اظہار تک نہیں کیا ۔ اسے ایوان سے نکال باہر کرنے کیلئے کوئی پہل نہیں کی ۔ ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ ساری دنیا کو اخلاقیات کا درس دینے والی بی جے پی کے دو قد آور قائدین سابق مرکزی وزراء ڈاکٹر ہرش وردھن اور روی شنکر پرساد بھی بدھوری کے ساتھ اور پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان دونوں نے بھی اس رکن کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ اپنے چہروں پر کھلی ہوئی مسکراہٹ سجائے ہوئے ایک طرح سے بدھوری کی بدکلامی اور گالی گلوچ کی تائید و حمایت کر رہے تھے ۔ اسپیکر لوک سبھا اوم برلا نے بھی صرف رمیش بدھوری کی سرزنش کو ہی کافی جان لیا ۔ انہوں نے آئندہ ایسالہجہ اختیار نہ کرنے کا ’’ انتباہ ‘‘ دیا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کے خلاف ایوان میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ ان سے معذرت خواہی نہیں کروائی گئی ۔ صرف ان کی گالی گلوچ کو ایوان کے ریکارڈ سے حذف کرنے کی بات کہی گئی ہے جو ایک بھونڈا مذاق ہی ہے ۔ حکومت یا وزراء یا پھر وزیر اعظم کے خلاف کوئی تلخ جملہ یا لفظ استعمال کردینے پر کئی ارکان کو سارے سشن کیلئے ایوان سے معطل کردیا گیا تھا لیکن یہاں صرف لفظی سرزنش کو ہی کافی سمجھا گیا ۔ یہ رویہ ناقابل فہم ہی کہا جاسکتا ہے ۔
ملک کے وزیر دفاع نے بدھوری کی گالی گلوچ اور بدکلامی اور اپنی گھٹیا سوچ کے اظہار پر صرف افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بھی بحالت مجبوری اس افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی پارٹی کے ایک رکن کو معذرت خواہی کرنے کو نہیں کہا ۔ یہ سارا کچھ اس ذہنیت اور سوچ کی عکاسی ہے جس کی بی جے پی اور اس کے ارکان پارلیمنٹ نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی سوچ نے سارے ملک کو انتہائی زہر آلود فضاء میں ڈھکیل دیا ہے ۔ عام گلی کے غنڈوں کی زبان اور گری ہوئی سوچ کا اظہار پارلیمنٹ میں کیا جا رہا ہے اور دوسرے ارکان اور ذمہ دار قائدین چہرے پر مسکراہٹ سجائے اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بدھوری کے الفاظ پارلیمنٹ کی نئی عمارت پر لگا ایک بدنما داغ ہی کہے جاسکتے ہیں۔
چیف منسٹر آسام کی بیان بازیاں
آسام کے چیف منسٹر ہیمنتا بسوا شرما ایسا لگتا ہے کہ اپنی زبان استعمال کرنے سے قبل سوچتے نہیں ہیں۔ انہیں اپنے ریاست میں اور بی جے پی میں مودی حکومت کے اقتدار کا اس قدر نشہ ہے کہ وہ ملک میں کسی اور کو برداشت کرنے ہی کو تیار نہیں ہیں۔ وہ بسا اوقات اس طرح کی بیان بازیاں کرتے ہیں کہ انتہائی غیر ذمہ دار شخص بھی حیران رہ جائے ۔ وہ آسام میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں مصروف ہیں ۔دینی مدارس کو انہوں نے نشانہ بنایا ۔ مسلمانوں کے خلاف ہر ممکنہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہیں اب اپنے سیاسی مخالفین کا وجود بھی برداشت نہیں ہو رہا ہے ۔ وہ سیاسی مخالفین کا صفایا بھی کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی کے تعلق سے حال ہی میں انہوں نے جو بیان دیا ہے وہ قابل مذمت ہے ۔ انہوں نے سونیا گاندھی کی قیامگاہ کو نذر آتش کردینے کی بات کہی ہے ۔ یہ ایک ریاست کے ذمہ دار چیف منسٹر کی زبان یا سوچ نہیں ہونی چاہئے ۔ کانگریس وہی جماعت ہے جس نے ہیمنتا بسوا شرما کو سیاسی زندگی دی ۔ سیاسی شناخت دی تھی ۔ کانگریس ہی میں انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ رشوت اور بدعنوانیوں کے اسکینڈل میں بی جے پی نے انہیں کلین چٹ دی ہے اور انہیں چیف منسٹر بنادیا ہے ۔ عہدہ اور اقتدار ہمیشہ نہیں رہتے ۔ اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور اقتدار کے نشہ میں بے قابو ہوتے ہوئے بیان بازیاں یا دھمکیاں دینے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔