ملک کی پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس جمعرات سے شروع ہونے والا ہے ۔ حکومت اس سشن میں کئی اہم بلز پیش کرنے اور ان کی منظوری حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ حکومت پارلیمنٹ سن کے دوران اپوزیشن کی تنقیدوں کا جواب دینے کی بھی اپنے طور پر تیاری کرچکی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی بنیادی اور انتہائی حساس نوعیت کے مسائل پر حکومت کو گھیرنے اور اسے نشانہ بنانے کی حکمت عملی تیار کی ہوئی ہے ۔ یہ سشن ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جبکہ ملک کا سیاسی ماحول بہت زیادہ گرم ہوچکا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے ایک نیا اتحاد تشکیل دیا ہے جس کا نام انڈیا رکھا گیا ہے ۔ دوسری جانب برسر اقتدار این ڈی اے نے بھی اپنی تائیدی اور حلیف جماعتوں کی تعداد میںاضافہ کرتے ہوئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ دو بڑی سیاسی سرگرمیاںگذشتہ دنوں رہی ہیںاور ان کا اثر بھی پارلیمنٹ مانسون اجلاس کے دوران دیکھنے کو مل سکتا ہے ۔ ہر دو فریق اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیںاور وہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کی حکمت عملی پر بھی غور کرچکے ہیں۔ موجودہ صورتحال میںپارلیمنٹ اجلاس اہمیت کا حامل کہا جاسکتا ہے ۔ حکومت جہاںاس سشن کے دوران کئی بلز پیش کرنا چاہتی ہے وہیں حکومت سے اپوزیشن جماعتیںکئی سوال بھی کرنا چاہتی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین پارلیمنٹ کے اندر ٹکراو کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے ۔ ایسی صورتحال پہلے بھی پیدا ہوچکی ہے اور دونوں ہی فریق ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ کئی مواقع ایسے بھی آئے ہیںجن میںاپوزیشن اور حکومت کے ٹکراو اور ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کی وجہ سے ایوان کا قیمتی وقت ضائع ہوا ہے ۔ کئی سرکاری کام کاج جس طرح ہونے چاہئے تھے ویسے ہوئے نہیںہیں ۔ پارلیمنٹ سشن ہو یا پھر ایوان کے باہر ہو سبھی نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور عوامی اہمیت کے حامل مسائل کو کہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ مانسون سشن کے دوران بھی ایسی ہی صورتحال کے پیدا ہونے کے اندیشے پائے جاتے ہیں۔ صورتحال میںکسی تبدیلی کی امید دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔
حکومت اس سشن میںیکساں سیول کوڈ جیسے متنازعہ مسئلہ پر بل پیش کرنا چاہتی تھی جس کے امکانات اب کم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یکساں سیول کوڈ ایسا مسئلہ ہے جس پر کئی گوشوں کو اعتراض ہے لیکن حکومت اپنے ایجنڈہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے اس کو لاگو کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ کچھ گوشوں کا تاثر یہ بھی ہے کہ اس مسئلہ کو حکومت خود بھی طوالت دینا چاہتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ سماج میں دوریاں پیدا ہوسکیں اور اس کا حکومت اور برسر اقتدار اتحاد کو فائدہ حاصل ہوسکے ۔ ابھی لا کمیشن کو تجاویز روانہ کرنے کیلئے مہلت میںاضافہ کیا گیا ہے اور فی الحال تو یہ ممکن دکھائی نہیںدے رہا ہے کہ مانسون سشن میںیکساں سیول کوڈ سے متعلق بل پیش کیا جاسکے ۔ اس کے بجائے حکومت دوسرے قوانین کیلئے بلز پارلیمنٹ میںپیش کرنا چاہتی ہے جن میںڈیجیٹل پرسنل ڈاٹا وغیرہ کے بلز شامل ہیں۔ حکومت کے اپنے کام کاج ہیںجن کو ایوان سے منظوری حاصل کرنا ہوگا تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ایوان کا وقت ضائع کرنے کی بجائے حکومت جو کچھ بھی بلز پیش کرنا چاہتی ہے اور انہیںمنظور کروانا چاہتی ہے ان پر ایوان میں مباحث کی گنجائش اور وقت دیا جائے ۔ اپوزیشن کی رائے کی سماعت کی جائے ۔ انہیںاظہار خیال کا موقع دیا جائے ۔ جو کچھ تجاویز اگر اپوزیشن کی جانب سے پیش کی جائیں تو ان پر غور کیا جائے اور اگر یہ مناسب ہوںتو ان کو بھی بلز اور قوانین میںشامل کیا جائے ۔ صرف اپنے تیار کردہ بلز پر اٹل رہنا ہندوستانی طرز حکمرانی کے مغائر ہے ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ انتہائی اہمیت کے حامل بلز اور قوانین پر بھی حکومت نے من مانی انداز اختیار کیا تھا ۔ اپوزیشن کو اظہار خیال کا موقع نہیںدیا گیا ۔ انتہائی معمولی سے وقت میں انتہائی اہم قوانین کو منظوری حاصل کرلی گئی ۔ یہ پارلیمانی طرز حکمرانی کے اصولوںکے مغائر ہے ۔ حکومت کو اپوزیشن کی رائے کو بھی احترام سے سننا چاہئے ۔ اس کے بعد ایوان ہی میںاس تعلق سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔ اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ وہ عوام سے تعلق رکھنے والے مسائل پر حکومت سے جواب طلب کرے ۔ کسی بھی بل کی مخالفت محض مخالفت کیلئے نہیں ہونی چاہئے اور اپنے طور پر موثر انداز میںتجاویز بھی پیش کی جانی چاہئیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کو پارلیمنٹ کی اہمیت اورافادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے ۔