پارٹی میں داخلی جمہوریت کا وہم

   

راجدیپ سردیسائی
کانگریس میں ’’لیٹر بم‘‘ کے بعد داخلی طور پر دوبارہ خاموشی نہیں چھائی۔ پارٹی میں داخلی جمہوریت کے بارے میں بہت زیادہ برہمی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ پارٹی کو ایک خاندان کی جاگیر بنا دیا گیا ہے۔ یہ وہ الزام ہے جو عام طور پر کانگریس پر گاندھی خاندان کا بھوت سوار ہونے کو بیان کرنے کے لئے عائد کیا جاتا ہے۔
اندرا گاندھی کے دور میں کانگریس کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد 51 سال بعد نہرو ۔ گاندھی خاندان کا ایک نہ ایک فرد 7 سال تک کانگریس پر قابو پاتا رہا لیکن الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پارٹی میں ایک ہی خاندان کی حکومت قائم ہوگئی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کانگریس اپنے اہم حریفوں کی بہ نسبت کم ’’جمہوری‘‘ ہے۔ مثال کے طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں جب بی جے پی کے صدر کے لئے کھلے انتخابات منعقد کئے گئے تو وزیر اعظم کے امیدوار کا انتخاب اس طرح نہیں کیا گیا جب راجناتھ سنگھ نے 2014 میں اپنی میعاد مکمل کی تو امیت شاہ کو متفقہ طور پر بی جے پی کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔ کسی نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ بہرحال انتہائی بااعتماد ساتھی تھے جو وزیر اعظم نریندر مودی کا ہو سکتا ہے۔

جب شاہ نے 2019 میں اپنے عہدہ سے استعفی دیا تو جے پی نڈا کو ایک بار پھر پارٹی نے منتخب کیا کیونکہ وہ بہ آسانی دستیاب تھے اور ایک ایسے لیڈر تھے جن کا عوام میں کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا جو کشتی کا ناخدا بن سکتاہو۔اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پارٹی کے کارکنوں کی تائید انہیں حاصل تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ جس کا ہیڈکوارٹرس ناگپور میں ہے ترقی دینا چاہتا تھا لیکن بی جے پی کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں جو صرف ایک ربر اسٹامپ ہے 2013 میں ان کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار آر ایس ایس کی جانب سے نامزد کیا گیا۔ جب پارٹی کے سرپرست ایل کے اڈوانی نے ناراض ارکان کی آواز کو کچل دیا لیکن انہیں (مارگ درشک منڈل رہنما کمیٹی) ڈھکیل دیا گیا۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ کسی قسم کے چیالنج کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس کے برعکس سونیا گاندھی نے گاندھی خاندان کی بہو کی حیثیت سے نمائندگی کرتے ہوئے اس بات کی اہل تھیں کہ گاندھی خاندان کی سربراہ بنیں اور اس کے اصول پر عمل کریں لیکن جب انہوں نے کانگریس کی باگ ڈور سنبھالی جبکہ سیتارام کیسری کے خلاف 1998 میں خون کا ایک بھی خطرہ بہائے بغیر بغاوت ہوئی تو انہیں رسمی طور پر بھی انتخابات لڑنا نہیں پڑے جہاں انہیں پارٹی کے لیڈر جتیندر پرساد شکست دے چکے تھے۔ پرساد قیادت کے لئے ان کو چیالنج کرسکتے تھے لیکن ان کے بیٹے کی طرح انہوں نے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ جتین یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس حکومت کے دور اقتدار میں بعد ازاں وزیر بنائے دیئے گئے۔

تقابل کیا جائے تو ایسا محسوس ہوگا کہ ناراض ارکان بی جے پی میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ 1970 کی دہائی میں جب جن سنگھ کے کہنا مشق قائد جیسے بلراج مدھوک نے واجپائی ۔ اڈوانی جوڑی کا مقابلہ کیا تھا تو ان کو ہمیشہ کے لئے پارٹی سے خارج کردیا گیا، جب گوئند آچاریہ نے جو ہندتوا نظریہ کے کرشماتی خالق تھے مبینہ طور پر وزیر اعظم واجپائی کو ’’مکھوٹا‘‘ (نقاب) قرار دیا تو انہیں پارٹی کے تمام عہدوں سے محروم کردیا گیا اور عملی اعتبار سے وہ غیر معروف ہوگئے۔ تازہ ترین حال میں گجرات کے تمام بی جے پی قائدین جو مودی مخالف گروہ سے تعلق رکھتے تھے یا تو خارج کردیئے گئے یا پھر انہیں ان کی اوقات میں رکھا گیا۔ کیا بی جے پی میں کوئی بھی اس بات کی جرأت کرسکتا ہے کہ آج ایک سوالیہ مکتوب وزیر اعظم کو روانہ کرے؟ اگر یہ سوالات ان کی قیادت کے انداز کے بارے میں ہوں، کیا وہ باقی رکھا جائے گا؟ پارٹی کے پلیٹ فارم پر ان کے بارے میں بہت کم کچھ سنا جاسکے گا۔ بی جے پی میں داخلی طور پر گزشتہ 6 سال سے گرما گرم بحث جاری ہے۔ اہم مسائل جن کے بارے میں قومی تشویش موجود ہے چاہے وہ کشمیر میں نوٹوں کی تنسیخ ہو یا پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کے دفتر کو جو اب مکمل طور پر ان کا ماتحت ہے بحث کا موضوع ہو؟

درحقیقت کانگریس بے شک زیادہ خاندانی اثر و رسوخ رکھتی ہے اور اس میں نامزد کرنے کی روایت پائی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ بی جے پی آج زیادہ جمہوریت پسند ہے۔ کانگریس میں اعلیٰ ترین عہدہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی گاندھی خاندان کے رکن کے لئے مختص کردیا گیا ہے لیکن بی جے پی میں بھی اب ایک ایسے سربراہ کی روایت پیدا ہوگئی ہے جو متبادل نظریہ کی کوئی گنجائش نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں بی جے پی نے ہمیشہ ’’پریوار‘‘ کو توسیع دی ہے یہ لفظ آر ایس ایس کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو ایک ماورائے دستور اتھاریٹی ہے۔ اہم سیاسی تقررات کے وقت وہ آخری اور قطعی ثالث ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جب یوگی آدتیہ ناتھ کو یوپی کا چیف منسٹر 2017 میں نامزد کیا گیا کیونکہ وہی منتخبہ اراکین اسمبلی کی اولین پسند تھے۔ یہ واقعہ لکھنؤ میں پیش آیا جبکہ یہ فیصلہ آر ایس ایس کی قیادت نے کیا تھا۔

مذہبی پارٹیاں کیا ہیں؟ بڑی حد تک یہ پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی کا بدترین حصہ ہیں، تقریباً یہ تمام پارٹیاں یاتو خاندان کے تحت جہاں آمرانہ اقتدار پایا جاتا ہے رہنا چاہتی ہیں اور نہ ان میں سے کوئی اپنی آوازیں فیصلہ سازی کے لئے اٹھانا چاہتا ہے کیونکہ ان میں فیصلہ سازی کی صلاحیت بہت کم ہے۔ وہ مشاورت کا طریقہ کار استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ کیا کوئی بھی ترنمول کانگریس میں ایسا کرسکتا ہے؟ مثال کے طور پر ممتابنرجی کی قیادت پر ہلکاسا اعتراض بھی برداشت نہیں جاتا۔ یہ رجحان عام ہے کہ لیڈر کی پوری اطاعت کے ذریعہ تقلید کی جائے اور اسے ’’جمہوری اتفاق رائے‘‘ قرار دیا جائے۔ 7 گھنٹے کی کانگریس مجلس عاملہ کے اجلاس میں جو 23 کانگریسی قائدین کی جانب سے روانہ کردہ مکتوب کے موضوع پر منعقد کیا گیا تھا غالباً پارٹی قیادت میں فیصلہ کیا کہ وہ کسی بھی قسم کی جانچ سے ماورا رہے گی۔

ممکن ہے کہ حقیقی جمہوری جذبہ کی یہ ایک جانچ اس وقت تجویز کی جائے گی جب کہ کل ہند کانگریس کی کمیٹی کا اجلاس ہوگا اور انتخابات کا جذبہ غالب رہے گا۔ صدر کانگریس کے عہدہ کے لئے مجلس عاملہ انتخابات منعقد کرے گی تو پھر سیاسی اعتبار سے زیادہ اہل امیدوار آگے آسکے گا۔ کانگریس کی مجلس عاملہ کے اجلاس سے پہلے 23 رکنی گروہ نے مجھ سے کہا کہ متنازعہ مکتوب اس لئے گاندھی خاندان کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا حالانکہ اس مکتوب کا مقصد خاندان پر تنقید نہیں بلکہ پارٹی کا احیاء تھا لیکن ان تمام باتوں کو ریکارڈ میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ ورنہ میں مشکل کا شکار ہو جاؤں گا۔ جب خوف کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہو تو کوئی بھی پارٹی جمہوریت سے بغلگیر نہیں ہوسکتی۔