پاکستان کی میزبانی میں افغان امن کانفرنس کا آغاز، افغان قائدین کی شرکت

,

   

ہم عمران خان حکومت کے شکرگذار ہیں ،افغان جنگ پاکستان کی بقاء کی جنگ :گلبدین حکمت یار

مری۔ 22 جون (سیاست ڈاٹ کام) افغانستان میں قیام امن کیلئے ‘‘لاہور پراسیس’’ سلسلے کی پہلی کانفرنس کا آغاز ہوگیا ہے۔بھوربن مری میں جاری اس کانفرنس میں افغانستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اور نمائندہ وفود شریک ہیں۔ ان میں 18 سیاسی جماعتیں اور ان کے 45 مندوبین شامل ہیں۔کانفرنس میں شریک نمایاں شخصیات میں سابق افغان وزیراعظم و حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار، سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی افغانستان و سابق گورنر استاد عطا محمد نور، حزب وحدت مردم افغانستان کے استاد محمد محقق، سابق وزیر دفاع وحید اللہ سبوران، سابق گورنر حاجی عزیز الدین، افغان امن جرگہ کے سربراہ محمد کریم خلیل، قومی اسلامی فرنٹ کے سربراہ پیر سید حامد گیلانی شامل ہیں۔ افغانستان کے متعدد سینیٹرز اور ارکان اسمبلی بھی کانفرنس کا حصہ ہیں۔گلبدین حکمت یار نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے شکر گزار ہیں کہ تمام افغان دھڑوں کو پاکستان میں یکجا کیا، کچھ طاقتیں افغانستان کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں اور افغانستان میں امن نہیں چاہتیں، افغان عوام گزشتہ 40 سال سے جنگ کی آگ میں جل رہے ہیں، یہ جنگیں افغان عوام پر مسلط کی گئی ہیں۔گلبدین نے کہا کہ افغان جنگ سے جتنا نقصان افغانستان کو پہنچا اس سے زیادہ پاکستان کا ہوا ہے، یہ جنگ افغانستان کی جنگ نہیں بلکہ پاکستان کے بقا کی جنگ بھی ہے، پاکستان اور افغانستان مل کر افغان جنگ کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔استاد عطا محمد نور نے کہا کہ اچھا ہوتا یہ کانفرنس پاک۔ افغان۔ طالبان سہ فریقی کانفرنس ہوتی، افغانستان پاکستان کو امن کیلئے اپنی کاوشیں کرنی ہوں گی، ایران اور وسط ایشیا کا افغان امن کیلئے کلیدی کردار ہے، افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں امن نہیں ہوگا تو نقصان ہوگا، داعش کی افغانستان میں موجودگی تشویش کا باعث ہے جبکہ افغان طالبان میز پر لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔لاہور پراسیس میں افغان سیکیورٹی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا اور عوامی رابطوں اور مستقبل کیلئے تجاویز کا تبادلہ خیال ہوگا جبکہ مستقبل کی حکومتوں کے درمیان اعتماد سازی کی فضاء قائم کرنے میں مدد ملے گی اور افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے حوالے سے بات ہوگی۔کانفرنس میں افغانستان کیلئے تجارت، روابط، صحت اور دیگر شعبوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع بھی ملے گا۔ مستقبل میں لاہور پراسیس میں طالبان کی شمولیت کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔