پرامن فضا کو بگاڑنے کی کوشش

   

اپنی آزادی پہ ہر ایک کو ہے ناز مگر
دام ہم رنگ زمیں ہے انھیں معلوم تو ہو
پرامن فضا کو بگاڑنے کی کوشش
تلنگانہ میں حکمراں پارٹی کے لیے سیاسی و انتخابی آزمائش کا مرحلہ ختم ہوچکا ہے اب اسے عوام کے سامنے اپنی حکمرانی کی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہے اور انتخابی وعدوں کی تکمیل کی جانب پیشرفت کرنا ہے لیکن بعض عناصر اس کی خرابیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے میں بھر پور مدد کررہے ہیں ۔ سیاسی دوستی کا مکمل حق نمک ادا کرنے کے لیے مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ کی مسماری کے واقعہ کو بری طرح نظر انداز کرلیا گیا یا پھر اس مسئلہ کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن حیدرآباد کے علاقہ عنبر پیٹ میں جہاں دو سو سالہ قدیم مسجد یکخانہ کو شہید کیا گیا ، وہاں کے مسلمانوں نے حکومت ، بلدیہ اور پولیس کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کیا اور بعض تنظیموں نے مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا تو اس کو روکنے کے لیے شر پسند عناصر میدان میں چھوڑے گئے ۔ شہر حیدرآباد کی پرامن فضا کو مکدر کرنے کے لیے بہانہ تلاش کیا جارہا ہے ۔ حکمراں ٹی آر ایس نے اندر ہی اندر جو منصوبے تیار کئے ہیں وہ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کے بعد ظاہر ہونے لگے ہیں ۔ سڑک کی توسیع کے لیے عنبر پیٹ کی قدیم مسجد کو شہید کرنے والے محکمہ کے عہدیداروں نے اپنی کارروائی کو درست سمجھا ہے تو مسجد کی شہادت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو کچھ دیر کے لیے چپ کرانے کے لیے اسی مقام پراز سر نو مسجد کی تعمیر کا وعدہ کیا گیا ۔ حکمراں پارٹی کے کاموں اور حرکتوں کی طرفداری کرنے والوں نے اپنی دانست میں جو کارروائی کی ہے اس کو درست سمجھا گیا اور عوام کو بھی درست باور کرایا جارہا ہے ۔یہ تو عوام ہی ہیں جنہوں نے اس بڑے واقعہ کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کیا ہے اور انتظار کررہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے مسجد کی شہادت کا سخت نوٹ لیا جائے گا اور اسی مقام پر مسجد تعمیر کردی جائے گی ۔ حکومت اور سرکاری محکموں کی کارکردگی سے عوام کو بے خبر رکھنے کے لیے مسجد یکخانہ کے واقعہ کو اچھالا گیا تو کبھی دبایا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ سڑک کی توسیع کے بہانے قدیم عبادت گاہ کو نقصان پہونچانے اور متبادل جگہ پر مسجد تعمیر کروا کر دینے کے وعدہ کے پیچھے کیا منصوبہ پنہاں ہے ۔ آیا ٹی ار ایس حکومت تلنگانہ کی پرامن فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا کو ابتر کرتے ہوئے اپنی پانچ سالہ میعاد پورا کرنا چاہتی ہے تاکہ عوام کو ذہنی ، جسمانی اور مالی طور پر سکون نہ مل سکے اور انہیں حکومت کے وعدوں ، نعروں کی جانب توجہ دلاکر ان پر عمل آوری کے لیے زور دینے کا موقع نہ دیا جائے ۔ مسجد یکخانہ کی تعمیر وقف اراضی پر کی گئی ہے اس مسجد کو شہید کرنے کے پیچھے سڑک کی توسیع کے بہانے کے علاوہ اور کیا عذر ہوسکتا ہے ۔ ؟ حکومت اس کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہے ۔ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے والی حرکتوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن حکومت کی سرپرستی میں ہی بعض عناصر مسلمانوں کے مذہبی امور اور جذبات کو ٹھیس پہونچانے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ ٹی آر ایس حکومت کی از خود آگ سے کھیلنے کی کوشش سمجھی جائے گی ۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کا کہنا ہے کہ اس نے مسجد یکخانہ کی اراضی کو معاوضہ کی ادائیگی کے بعد اپنے قبضہ میں لے لیا تھا ۔ شہر میں سڑکوں کی توسیع کے لیے عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کی پالیسی پر واقعی عمل پیرا ہوگئے ہیں تو حکومت اور اس کے سرکاری محکموں کو چاہئے کہ وہ عبادت گاہوں کے تعلق سے پہلے متعلقہ ذمہ دار افراد سے بات چیت کریں لیکن یکخانہ مسجد کے معاملہ میں ایسا نہیں کیا گیا ۔ صرف حکومت کے حامی سیاسی کارندے چھوڑے گئے ہیں جو مسلمانوں کے غم و غصہ کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے لیے تیار رہتے آئے ہیں ۔ مسجد کی شہادت کا مسئلہ اگر نازک بن جائے تو سب سے زیادہ نقصان پرانے شہر کی عام زندگی کو دھکہ پہنچے گا ۔ لہذا متعلقہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسجد کی شہادت سے اٹھنے والے طوفان اور ناراضگیوں کو دور کرتے ہوئے کام کاج کو ترجیح دیں ۔ حکمراں طبقہ کے ذمہ دار شخص مسجد کے مقام پر دوبارہ مسجد کی تعمیر کروانے اور اس واقعہ کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کرچکے ہیں ۔ بی جے پی ہو یا ٹی آر ایس ہر دو کا نظریہ یکساں ہے ۔ مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا واقعہ نیا نہیں ہے لیکن اس طرح بیٹھے رہنے سے اصل مقصد امن حاصل نہیں ہوسکے گا ۔ اس کے لیے سخت جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ ملک کی حکمراں پارٹی بی جے پی کا سیاسی سفر مندر ۔ مسجد سے شروع ہوا تھا اب وہ اس مسئلہ کو تازہ رکھنے کے لیے مسجد مندر موضوع بناکر کام کرے ۔ مندر مسجد سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والی بی جے پی اب پے در پے اخراجات میں محصور ہوچکی ہے ۔ آئندہ عام انتخابات میں 2001 ۔ 1989 ہو یا اس کے بعد کے برسوں میں ملک کے حالات کا پیدا ہونا یہ سب روز کا معمول ہے لیکن مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچا کر یہ حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے تو وہ کسی بھی وقت آر ایس ایس کو بھی میدان میں چھوڑ سکتی ہے ۔۔