ہم تھے بس ان کے لئے ایک پرزا مگر
جب روکی مشین ان کی‘ تو ہم ہوگئے بے گھر
بھٹک رہے ہیں ہم ڈگر ڈگر
جن شہر کو نگرکو بنایاہم نے کرکے ایک خون اور جگر
نہ قدر کی ہماری نہ دیادیکھائی یہ بے خبر
ٹھوکریں کھاتے رہے ہر گلی ہر نگر
چل پڑی تھی جب شارمک کی ریل مگر
ٹرینیں بھٹک گئی ادھر اُدھر
بھوک‘ پیاس’بیماری‘ بڑھتی گئی اس قدر
گویا یہ سب کچھ بن گیا میری قدر
ملے کچھ ایسے پریمی ایسے دوست مگر
ہر موڑ پر کھڑ ے تھے کرتے میری فکر
کہا انہوں نے ”ٹہرو کچھ کھالو‘ کچھ پیو شروع کرنے سے پہلے سفر
ہم کو تھا بھیجا گیا تھا کے بنایا مددگار
بنائیں ہم انسانوں کے دلوں کے باہر
نفرت کی توڑیں ہم دیوار