پرینکا کی ’اِنٹری‘ کانگریس کا ’ماسٹر اِسٹروک‘

   

عرفان جابری
لوک سبھا انتخابات 2019ء جیسے جیسے قریب ہوتے جارہے ہیں، لگ بھگ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی سیاسی ’دھماکہ‘ پیش آرہا ہے۔ تازہ ترین سیاسی تبدیلی پرینکا گاندھی وڈرا کا برسوں سے جاری قیاس آرائیوں اور کانگریسیوں کے مطالبات کے درمیان آخرکار سرگرم سیاست میں داخلہ ہے۔ انھیں اُن کے بھائی اور صدر کانگریس راہول گاندھی نے جنرل سکریٹری، اے آئی سی سی (آل انڈیا کانگریس کمیٹی) برائے اترپردیش (مشرق) مقرر کیا ہے۔ وہ یو پی کی 80 لوک سبھا نشستوں کے منجملہ 40 کا احاطہ کریں گی جن میں وزیراعظم نریندر مودی کا حلقہ انتخاب وارانسی اور چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ کا سابقہ پارلیمانی حلقہ انتخاب گورکھپور شامل ہیں۔ صدر کانگریس نے بقیہ 40 نشستوں کی ذمہ داری مدھیہ پردیش کے نامور لیڈر آنجہانی مادھو راؤ سندھیا کے بیٹے جیوتر ادتیہ سندھیا کو سونپی ہے۔

راہول زیرقیادت کانگریس کا 47 سالہ پرینکا کو جنرل الیکشن سے بمشکل 3-4 ماہ قبل سیاسی منظر پر لانے کے ’ماسٹر اسٹروک‘؛ گزشتہ برسوں میں پرینکا گاندھی کا عملی سیاست میں داخلے سے پس و پیش اور اپنی ماں سونیا گاندھی اور بھائی راہول کے حلقہ جات انتخابات رائے بریلی و امیٹھی میں انتخابی مہم چلانے تک محدود رہنا؛ بالآخر سیاسی میدان میں اُترنے کے فیصلے پر شوہر رابرٹ وڈرا کی بھرپور تائید و حمایت حاصل ہونا؛ شوہر وڈرا کے خلاف اپوزیشن کے بعض الزامات کا پرینکا کے سیاسی کریئر پر امکانی اثر؛ کانگریس کے حلیف اپوزیشن پارٹیوں اور برسراقتدار بی جے پی کے ردعمل جیسے نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔
گجرات اسمبلی انتخابات (ڈسمبر 2017ئ) تک راہول گاندھی کو اپوزیشن حتیٰ کہ وزیراعظم نے ’پپو‘ (بھولا و کمزور شخص) کا لقب دے رکھا تھا، لیکن وزیراعظم اور صدر بی جے پی امیت شاہ کی آبائی ریاست میں اُس وقت کے نائب صدر کانگریس راہول نے وہاں برسہا برس سے برسراقتدار بی جے پی کے خلاف تن تنہا پارٹی کی انتخابی مہم چلاتے ہوئے 182 رکنی اسمبلی کی 150 نشستیں حاصل کرنے امیت شاہ کے دعوؤں کو چکناچور کیا اور انھیں اندرون 100 تک گھٹایا، جس پر بی جے پی کو 17 نشستوں کا نقصان ہوا۔ یہ کانگریس کی اخلاقی فتح ہوئی حالانکہ گجرات سے دور ہوکر مودی نئی دہلی پہنچ جانے کے باوجود بی جے پی کا اقتدار برقرار رہا۔ تاہم، یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ گجرات میں کوئی بھی طاقتور لیڈر سے عاری کانگریس کو راہول نے اشوک گہلوٹ (موجودہ چیف منسٹر راجستھان) کے ساتھ مل کر طاقتور اپوزیشن کا موقف دلایا۔ وہ اسمبلی نتائج کے بعد سے بی جے پی کی طرف سے راہول کیلئے ’پپو‘ کا طنزیہ لقب سننے میں نہیں آیا۔ درحقیقت، 48 سالہ راہول کے سیاسی کریئر میں گجرات الیکشن فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا، جس کے فوری بعد اُن کی ماں اور یو پی اے (یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس) چیئرپرسن سونیا گاندھی نے کانگریس کی صدارت سے سبکدوشی اختیار کرتے ہوئے راہول کو صدر پارٹی بنادیا۔ تب سے نئے صدر کانگریس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کرناٹک میں فرقہ پرست بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کی علاقائی پارٹی جنتا دل (سکیولر) کے ساتھ بروقت مخلوط بناتے ہوئے کمارا سوامی زیرقیادت جے ڈی(ایس)۔ کانگریس حکومت کی تشکیل کو یقینی بنایا گیا، جو وزیراعظم اور صدر بی جے پی کی سرپرستی میں اسٹیٹ یونٹ لیڈر بی ایس یدیورپا کے خلاف راہول کی کانگریس کی کامیاب سیاسی حکمت عملی ثابت ہوئی۔ حالیہ نومبر؍ ڈسمبر میں راہول نے پھر ایک تن تنہا انتخابی مہم پانچ اسمبلی انتخابات کیلئے چلائی۔ وزیراعظم، صدر بی جے پی کو چھوڑیئے، سیاسی پنڈتوں کو تک اندازہ نہیں تھا کہ کانگریس ایک ہی جھٹکے میں تین ریاستوں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کردے گی۔ ماضی قریب کی انتخابی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا دیکھنے میں آیا ہے۔ اگرچہ تلنگانہ اور میزورم میں کانگریس کو شکست ہوئی لیکن جنرل الیکشن سے چند ماہ قبل تین ریاستوں میں پارٹی کو اقتدار تک پہنچانے کے بعد یقینا صدر کانگریس کا سیاسی قد اونچا ہوا اور وہ اپنی چھوٹی بہن کی پرچھائی سے نکلنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔ شاید یہی وجہ ہے دیوے گوڑا، شردپوار (سربراہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی)، این چندرا بابو نائیڈو (چیف منسٹر آندھرا پردیش و صدر تلگودیشم پارٹی) جیسے سینئر ترین، تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدان راہول زیرقیادت کانگریس کے ساتھ مخلوط بنانے میں سنجیدگی نہ دکھاتے۔ اب عام انتخابات سے عین قبل پرینکا وڈرا کو ملک کی سب سے بڑی ریاست میں بی جے پی کے خلاف انتخابی سیاست میں کھڑا کرکے اور ساتھ ہی اکھلیش یادو (صدر سماجوادی پارٹی) اور مایاوتی (سربراہ بہوجن سماج پارٹی) کے چند روز قبل ہی طے شدہ اتحاد کو ’فرینڈلی‘ قرار دیتے ہوئے راہول زیرقیادت کانگریس نے ’ماسٹر اسٹروک‘ یا ماہرانہ اقدام کا مظاہرہ کیا ہے۔

پرینکا گاندھی کی شادی دہلی سے تعلق رکھنے والے رابرٹ وڈرا کے ساتھ 1997ء میں ہوئی اور وہ دو بچوں بیٹا ریحان اور بیٹی میرایا کی ماں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ برسوں سے ہی سے نہ صرف کانگریسی بلکہ عام ہندوستانی عوام بھی آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کی پوتی پرینکا کو راہول پر ترجیح دیتے ہوئے عملی سیاست میں دیکھنا چاہتے رہے ہیں۔ پرینکا ظاہری کشش کے معاملے میں بلاشبہ اپنی دادی سے بہت مشابہ ہیں اور شاید کانگریسیوں نیز عام لوگوں کو پرینکا میں اندرا گاندھی نظر آتی ہیں۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ پرینکا نے عملی سیاست میں داخلے کے معاملے میں کبھی دلچسپی نہیں دکھائی تھی اور خود کو رائے بریلی اور امیٹھی یا پھر زیادہ سے زیادہ پارٹی کیلئے صلاح و مشورہ تک محدود رکھا تھا۔ آج 2019ء میں صدر کانگریس راہول گاندھی کی اپنی شناخت ہے اور انھوں نے گزشتہ ایک سال میں واقعی اپنی سیاسی صلاحیتیں ثابت کئے ہیں۔ اس پس منظر میں بی جے پی کا ردعمل دیکھا تو ہنسی آئی اور اُن کی مایوسی ظاہر ہوئی۔ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کی دانست میں پرینکا کو سرگرم سیاست میں اس لئے لایا گیا کیونکہ راہول گاندھی کی قیادت ناکام ہوچکی ہے! (یہ احمقانہ تبصرہ نہیں تو اور کیا ہے؟)
راہول گاندھی ابھی تک غیرشادی شدہ ہیں، جیسا کہ ہندوستان میں اور بھی کئی قائدین ہیں یا ماضی میں رہے ہیں، مثلاً ممتا بنرجی، مایاوتی، آنجہانی جیہ للیتا، آنجہانی اٹل بہاری واجپائی، اے پی جے عبدالکلام مرحوم۔ یہ سب کو فیملی کی ذمہ داری نہیں ہے؍ تھی۔ قدرت نے جب مرد اور عورت بنائے ہیں تو انھیں ایک دوسرے کیلئے بنایا ہے۔ اس کے باوجود جانے کیوں مشہور و معروف لوگ بیوی بچوں کی ذمہ داری سے عاری زندگی گزار کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں؟ اس سے قطع نظر بیوی اور شوہر میں اچھی زندگی کیلئے بہتر تال میل ہونا ضروری ہے۔ جیسے ہی پرینکا کو راہول نے اے آئی سی سی جنرل سکریٹری برائے مشرقی اترپردیش مقرر کرنے کااعلان کیا، شوہر رابرٹ نے بیوی کو مبارکباد دی اور اُن کے سیاسی سفر کیلئے اپنی طرف سے بھرپور تائید و حمایت کا اعلان کیا۔ یعنی پرینکا۔ رابرٹ جوڑے میں اس تعلق سے کوئی اختلاف یا پس و پیش نہیں ہے۔ یہ پرینکا کیلئے خوش آئند بات ہے۔

بعض بی جے پی قائدین بالخصوص ڈپٹی چیف منسٹر بہار سشیل کمار مودی نے عملاً دھمکی دی ہے کہ اب رابرٹ وڈرا کے خلاف بعض الزامات دوبارہ شدت سے اُٹھائے جائیں گے تاکہ پرینکا دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور ہو اور بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچے۔ میرا ماننا ہے کہ اب وہ دَور قصہ پارینہ ہوچکا جب عملی سیاست میں اخلاقیات کا مظاہرہ ہوا کرتا تھا، اکثر قائدین کے ضمیر زندہ تھے؛ اب حال یہ ہے کہ شمال سے جنوب تک، مشرق سے مغرب تک شاید ہی کوئی لیڈر ملے جس پر ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کا الزام نہ ہو، یا کرپشن میں ملوث نہ ہو۔ کیا بی جے پی، کیا کانگریس اور کیا علاقائی و چھوٹی پارٹیاں سب کام ایک جیسا کرتے ہیں مگر بیانر الگ الگ ہیں! جب زندگی میں ایسی صورتحال پیش آجائے تو شریف النفس، دیانتدار اور نیک سیرت لوگوں کو کم نقصان دہ یا کم خراب پارٹی اور قائدین کو چننا ہوگا تاکہ عوام بھاری زک سے محفوظ رہ سکیں اور تین وقت کی روٹی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے بغیر نصیب ہوجائے!
پرینکا کے تقرر پر کانگریس کی حلیف پارٹیوں نے خیرمقدم کیا ہے جو قدیم پارٹی کیلئے ایک اور خوش آئند امر ہے۔ اس کے برخلاف بڑی برسراقتدار پارٹی کا ردعمل کم ظرفی ظاہر کرتا ہے۔ مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے وہی خاندانی سیاست کا راگ الاپا ہے۔ وہ خاصے تعلیم یافتہ شخص ہیں لیکن کوتاہ نظر ہیں، انھیں شاید ملک کے طول و عرض پر نظر ڈالنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ صرف نہرو۔ گاندھی فیملی کے تعلق سے خاندانی سیاست چلانے کی باتیں ہوتی تھیں۔ اول تو اس میں زندگی کے کسی بھی شعبہ کے اعتبار سے کچھ قباحت نہیں، کیونکہ آخرکار کسی فرد کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ اُس کی کارگزاری پر ہوتا ہے، اُس کا خاندان اسے زبردستی کامیاب نہیں بناسکتا! دوم، یہ کہ آج ملک کی چاروں سمتوں میں بلاتخصیص خاندانوں کے کئی کئی افراد ایک ہی شعبے سے وابستہ ہیں۔ ممکنہ طور پر انتخابی سیاست سے دور سونیا گاندھی کے بیٹا اور بیٹی ایک ساتھ عملی سیاسی میدان میں رہیں تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی!
irfanjabri.siasatdaily@gmail.ہcom