پلوامہ حملہ، بالاکوٹ فضائی کارروائی کے باوجود مودی کی جیت یقینی نہیں

   

ادتیہ مینن
پلوامہ حملہ اور بالاکوٹ فضائی کارروائی کا آیا انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کو فائدہ ہوگا، اس کی پیش قیاسی کیلئے ریاست واری سطح پر غور کرنا پڑے گا۔ کارگل جنگ کے بعد بی جے پی نے راجستھان، مدھیہ پردیش اور دہلی جیسی ریاستوں میں اچھا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن اسے یو پی میں نقصان ہوا۔ اٹل بہاری واجپائی کی اپنی مقبولیت میں بنیادی طور پر کرگل کی وجہ سے 9.6 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ایسا مودی کے حق میں بھی ہوسکتا ہے۔ سرجیکل اسٹرائک اترکھنڈ اور یو پی میں بڑا موضوع بنے، لیکن پنجاب میں نہیں۔ اور آخر میں، انتخابی اتحادوں اور معاشی مسائل کا قطعی نتیجے پر عظیم تر اثر پڑسکتا ہے۔
جیسے ہی پاکستان کے بالاکوٹ میں ہندوستان نے فضائی کارروائی مکمل کی، کئی لوگوں بشمول وزیراعظم مودی کے بعض نقادوں نے بھی انھیں آنے والے لوک سبھا انتخابات جیتنے پر مبارکباد دینا شروع کردیا۔ بی جے پی لیڈر بی ایس یدی یورپا نے تو تعداد بھی بتادی کہ فضائی حملے سے بی جے پی کو کرناٹک میں 22 نشستیں جیتنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں کے واقعات… 14 فبروری کو پلوامہ میں دہشت گردانہ حملہ، 27 فبروری کو بالاکوٹ میں ہندوستان کی فضائی کارروائی، ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کا پکڑا جانا اور آخرکار ان کی رہائی… نے پاکستان اور دہشت گردی کو 2019ء لوک سبھا انتخابات سے قبل کلیدی مسائل بنادیا ہے۔ لیکن ایسا کہہ دینا بڑا آسان ہے کہ ہند۔ پاک کشیدگیوں نے پی ایم مودی کو دوسری میعاد کی ضمانت دے دی ہے۔ تین قسم کی دلیلیں پیش کی جارہی ہیں:
٭ پاکستان پر بڑھتی توجہ ان تنقیدوں سے توجہ ہٹائے گی جن کا بی جے پی کو بیروزگاری، زرعی بحران اور مبینہ رافیل اسکام جیسے مسائل پر سامنا ہورہا ہے۔
٭ معاشی مسائل جیسے بیروزگاری اور زرعی پریشانی بہت بنیادی مسائل ہیں اور بہت زیادہ ووٹروں پر اثر ڈالتے ہیں کہ یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگیوں سے پس پشت ہونے والے نہیں۔
٭ پاکستان کے ساتھ سارا تعطل ہندوستان کیلئے الجھن میں اختتام پذیر ہوا اور اس کا آنے والے انتخابات میں مودی کو نقصان ہوسکتا ہے۔
پڑوسی ممالک کے ساتھ ماضی میں ٹکراؤ کے حالات کا انتخابات میں (اگر کوئی اثر پڑا ہو تو) ملا جلا اثر رہا ہے۔
٭ 1967 ء کے عام انتخابات میں کانگریس کا ووٹ اور نشست تناسب گھٹا، جبکہ وہ چناؤ ہندوستان کی چین (1962) اور پاکستان (1965) کے ساتھ جنگوں کے بعد منعقد ہوئے تھے۔
٭ 1971ء کی جنگ اُس سال عام انتخابات میں اندرا گاندھی کی فتح کے بعد پیش آئی۔ لیکن اگلے انتخابات تک جو 1977ء میں منعقد کئے گئے، کانگریس کو بڑی حد تک ایمرجنسی کے خلاف برہمی کے سبب شکست ہوئی۔
٭ 1999ء کے عام انتخابات میں جو کرگل میں پاکستان کے ساتھ ہندوستان کی لڑائی کے چند ماہ بعد منعقد ہوئے، وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا اقتدار برقرار رہا۔
٭ یو پی اے 2009ء کے انتخابات میں زیادہ اکثریت کے ساتھ اقتدار پر واپس ہوئی حالانکہ بی جے پی نے اسے 26 نومبر 2008ء کو ممبئی میں پیش آئے دہشت گردانہ حملوں پر بہت نشانہ بنایا۔
٭ 2016 ء کے سرجیکل اسٹرائک کے بعد منعقدہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے چار ریاستوں (اترپردیش، اترکھنڈ، گوا اور منی پور) میں اقتدار پر قبضہ کیا جبکہ کانگریس نے پنجاب جیتا۔
جب ہم پلوامہ حملہ اور بالاکوٹ فضائی کارروائی کے انتخابی اثر کی پیش قیاسی کی کوشش کررہے ہیں تو ہمیں بی جے پی کے پرفارمنس سے جڑے دو واقعات کے اثر کا کچھ تفصیل سے جائزہ لینا پڑے گا: 1999ء کی کرگل لڑائی اور 2016ء کے سرجیکل اسٹرائک۔
اٹل بہاری واجپائی کی حکومت مارچ 1999ء میں گرگئی تھی۔ اس سے چند ماہ قبل ڈسمبر 1998ء میں بی جے پی راجستھان، مدھیہ پردیش اور دہلی کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے ہاتھوں شکست برداشت کرنا پڑا تھا۔ یہ اس انداز سے کچھ مختلف نہیں رہا جیسا کہ اس نے راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ 2018ء میں ہارا ہے۔ لیکن کرگل میں پاکستانی دراندازی اور پھر لڑائی نے سیاسی حالات میں نمایاں تبدیلیاں لائے۔ واجپائی کی مقبولیت لوک نیتی سنٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز کے منعقدہ نیشنل الیکشن اسٹیڈی کے مطابق 1998ء اور 1999ء کے درمیان 9.6% بڑھ گئی۔ بی جے پی کا کئی ریاستوں ؍ مرکزی زیرانتظام علاقوں جیسے گوا، گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، دہلی میں ووٹ تناسب بڑھ گیا۔ تاہم، بی جے پی کے فائدے اترپردیش میں نقصانات سے بے اثر ہوئے جیسا کہ 1998ء میں 58 نشستوں سے وہ 1999ء میں 29 سیٹوں تک گھٹ گئی۔ یو پی میں اس کی ناکامی کے پس پردہ وجوہات میں کانگریس کا احیاء شامل ہے جبکہ سونیا گاندھی نے صدر پارٹی کی حیثیت سے باگ ڈور سنبھالی تھی۔
اس کے باوجود 1999ء میں بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے مستحکم حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہونے کی بڑی وجہ اتحاد رہے۔ آندھرا پردیش میں تلگودیشم پارٹی اور بی جے پی نے 42 کے منجملہ 36 جیتے تھے۔ ہریانہ میں بی جے پی۔ آئی این ایل ڈی اتحاد نے تمام 10 نشستیں جیت لیں۔ جنتادل میں پھوٹ پڑی اور شرد یادو اور رام ولاس پاسوان کا گروپ جارج فرنانڈیز اور نتیش کمار کی سمتا پارٹی کے ساتھ مل کر جنتا دل (یونائیٹیڈ) بن گیا۔ بی جے پی اور جے ڈی (یو) اتحاد نے بہار میں 54 کے منجملہ 41 نشستیں جیتے، جو ایک سال قبل 29 تھے۔ اسی طرح مہاراشٹرا میں بی جے پی ۔ شیوسینا کو کانگریس میں پھوٹ اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کی تشکیل سے فائدہ ہوا۔ وہ 28 سیٹیں جیتے جو 1998ء کے مقابل 10 زیادہ رہے۔ جہاں تک واجپائی کے دور میں کرگل لڑائی کے بعد اتحادوں کا معاملہ ہے، کچھ اسی طرح پی ایم مودی کے کیس میں بھی ہے۔ پلوامہ حملہ کے فوری بعد بی جے پی دو کلیدی حلیفوں شیوسینا اور اکالی دل کے ساتھ اتحاد طے کرنے میں کامیاب ہوگئی جبکہ دونوں نے ماضی قریب میں تعلقات منقطع کرلینے کی دھمکی دی تھی۔ستمبر 2016ء میں سرجیکل اسٹرائک اُس ماہ کے اوئل اُری حملہ کے جواب میں کئے گئے تھے۔ تاہم، کارروائی کا بی جے پی کو سیاسی طور پر خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا ہے۔ سرجیکل اسٹرائک کے بعد سے لگ بھگ ہر الیکشن میں بی جے پی کا ووٹ شیئر 2014ء لوک سبھا انتخابات سے تقابل میں کم ہوا ہے۔ صرف شمال مشرقی ریاستیں مستثنیٰ رہی ہیں۔
لوک سبھا چناؤ میں متوقع رجحان
ایسے ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کا جائزہ لیتے ہیں جہاں بی جے پی کو کانگریس کے خلاف راست مقابلہ درپیش ہے۔ ہماچل پردیش (4)، اترکھنڈ (5)، راجستھان (25)، مدھیہ پردیش (29)، چھتیس گڑھ (11)، گجرات (26)، دمن اور دیوو (1)، دادر اور نگر حویلی (1)، انڈمان اور نکوبار جزائر (1)، گوا (2) اور جموں و کشمیر میں جموں خطہ (2) ۔ یہ مجموعی طور پر لوک سبھا میں 107 نشستیں ہوتی ہیں۔ ہند۔پاک کشیدگیاں ان ریاستوں میں دیگر کے مقابل زیادہ اہم عنصر بن سکتے ہیں۔ لیکن بی جے پی نے ان 107 میں سے 104 نشستیں جیت رکھی ہیں۔ ایسا امکان نہیں کہ اس کارنامہ کا اعادہ ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے کشیدگیوں کے سبب رجحان میں ممکنہ تبدیلی سے اسے اپنے نقصانات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بہت کچھ انحصار کانگریس کی قابلیت پر رہے گا کہ وہ اس رجحان کو بدلنے کیلئے زرعی قرض کی معافیاں اور بیروزگاری جیسے مسائل کو کس طرح استعمال کرتی ہے۔
تین ریاستیں اور ایک ذیلی خطہ ایسا ہے جہاں ہند۔پاک کشیدگیاں انتخابی موضوع کی حیثیت سے گھن گرج پیدا کرسکتے ہیں: ہریانہ (10)، مہاراشٹرا (48)، دہلی (7)اور چنڈی گڑھ اور جموں و کشمیر میں لداخ خطہ۔ یہاں این ڈی اے کو کانگریس یا کوئی علاقائی پارٹی کے خلاف مقابلہ ہے چاہے وہ مل کر لڑیں یا اتحاد کے طور پر۔ اس گوشے میں 67 نشستوں کے منجملہ میں این ڈی اے 58 جیتے ہیں۔ دوبارہ وہی صورتحال ہے کہ اس کارنامہ کو دہرانے کا امکان نہیں ہے، حالانکہ پاکستان مسئلہ کی وجہ سے ممکنہ طور پر موقف مضبوط ہوا ہے۔
مغربی بنگال (42) اور اوڈیشہ (21) جیسی ریاستوںمیں جہاں بی جے پی علاقائی پارٹی زیرقیادت ریاستی حکومتوں کیلئے بڑی چیلنجر ہے ، ہند۔پاک مسئلہ بی جے پی کے ووٹ تناسب میں اضافہ کا موجب بن سکتا ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس سے نشستوں کا بھی فائدہ ہوگا۔
بہار (40)، ٹاملناڈو (39) اور پڈوچیری (1) ریاستوں میں بی جے پی کے امکانات کا انحصار بڑی حد تک نئے اتحادوں پر ہوگا جو اس نے بنائے ہیں۔
ریاستوں اترپردیش (80)، کرناٹک (28) اور جھارکھنڈ (14) میں اپوزیشن کے اتحاد طاقتور ہیں اور ممکن ہے بی جے پی کو بڑا نقصان پہنچائیں گے۔ مابعد پلوامہ فائدہ ان نقصانات پر قابو پاسکتا ہے لیکن بہت محدود حد تک۔
تلنگانہ (17)، آندھرا پردیش (25)، کیرالا (20)، پنجاب (13)، جموں و کشمیر میں خطہ کشمیر (3)، سکم (1) اور لکشادویپ (1) کے ریاستوں و مرکزی زیرانتظام علاقوں میں بی جے پی انتخابی سیاست کے معاملہ میں حاشیہ پر ہے اور امکان نہیں کہ اسے پاکستان مسئلہ سے کوئی فائدہ ہوگا۔
سارے شمال مشرق میں سٹیزن شپ بل اور اروناچل پردیش میں پی آر سی نے جو بگاڑ پیدا کیا ہے ، اس سے ممکن ہے ہند۔پاک کشیدگیوں کی وجہ سے ممکنہ فائدہ بے اثر ہوجائے گا۔
پلوامہ حملہ اور بالاکوٹ فضائی کارروائی کے سبب بی جے پی کے حق میں جو کچھ بھی رجحان پیدا ہوا ہے وہ امکانی حلیفوں کو بی جے پی کی طرف لاسکتا ہے لیکن یہ عنصر اپوزیشن کے اندرون بھی عظیم تر مضبوطی کا موجب بن سکتا ہے۔ یہ بات عیاں ہورہی ہے کیونکہ اترپردیش میں کانگریس اور مہاگٹھ بندھن کے درمیان بات چیت کا احیاء، اور مغربی بنگال اور اوڈیشہ میں لیفٹ فرنٹ کی کانگریس سے دوستی کا اشارہ جیسی تبدیلیاں پیش آئی ہیں۔