پلوامہ دہشت گرد واقعہ اور سرجیکل اسرٹائیک کی حقیقت مودی جی جواب دیں

   

محمد ریحان
پلوامہ میں 14 فروری کو پاکستان سے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے والی تنظیم جیش محمد نے ایک دہشت گردانہ دھماکو مادہ سے لدی اپنی گا ڑی سی آر پی ایف قافلہ میں گھسادی اور دھماکہ کردیا ۔ اس واقعہ میں کم از کم 40 سی آر پی ایف جوان مارے گئے اور درجنوں جوان شدید زخمی ہوئے ۔ بعد میں کہا گیا کہ دہشت گرد نے اپنی گا ڑی میں 300 تا 350 دھماکو مادہ رکھا ہوا تھا ۔ اس واقعہ پر سارے ملک میں برہمی کی لہر دوڑ گئی ۔ عوام نے مودی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھانے شروع کردیئے ۔ ایک ایسے وقت جبکہ سارا ملک اپنے40 سی آر پی ایف جوانوں کی شہادت پر مغموم تھا ، مہلوک سپاہیوں کے گھروں میں کہرام مچا ہوا تھا ، انکاونٹر کا واقعہ پیش آیا جس میں ایک میجر سمیت مزید چار جوان اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے جس پر ملک کے کونے کونے سے دہشت گردوں کو کیفر کرادار تک پہنچانے کے مطالبات کئے جانے لگے ۔ چنانچہ مودی حکومت نے 25 فروری کو پاکستان کے علاقہ میں سرجیکل اسٹرائیک کیا ، 21 منٹ کے اس آپریشن میں MiG 21 بائسن طیاروں نے حصہ لیا اور بڑی کامیابی سے واپس ہوگئے۔
پھر دو MiG 21 بائسن طیاروں نے پاکستان میں گھس کر یہ دکھا دیا کہ ہندوستانی فضائیہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے دو میں سے ایک MiG 21 طیارہ کو پاکستان میں اس کے امریکی ساختہ F-16 نے مار گرایا ۔ تاہم ہمارا سپاہی ونگ کمانڈر ابھینندن وردھمان نے پیراشوٹ کے ذریعہ زمین پر اترنے میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن پاکستانی فورسس نے انہیں حراست میں لے لیا ۔ بہرحال پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے انہیں یہ کہتے ہوئے رہا کرنے کا اعلان کیا کہ پاکستان صرف اور صرف جذبہ خیر سگالی و امن کیلئے ہندوستانی پائلٹ کو رہا کر رہا ہے ۔ ان تمام واقعات پر ہندوستان بھر میں جہاں اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت پر سوالات کی بارش کردی وہیں عام شہریوں ، شہید فوجیوں کے غمزدہ ارکان خاندان ، ہمارے دیانتدار صحافی (گودی میڈیا کو تلوے چاٹنے سے فرصت نہیں وہ حکومت سے سوال کیا کرے گا ؟) سماجی جہد کار اور دانشور بھی سرجیکل اسٹرائیک کی حقیقت ، سرحدوں کی حفاظت کیلئے کئے جارہے اقدامات ، حکومت کی کارکردگی اس کے دعوؤں و وعدوں سے متعلق سوالات پوچھنے لگے ہیں۔ محب وطن ہندوستانیوں کا کہنا ہے کہ ہم میں سے ایک (شائد ان کا اشارہ کلبھوشن جادھو کی طرف ہو) پاکستان کی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔ ایسے میں ہم حکومت سے کچھ سوالات پوچھنا چاہیں گے۔
(1 سرجیل اسٹرائیک کے بارے میں اب تک باضابطہ کوئی سرکاری اعلان منظر عام پر نہیں آیا ۔ ایسے میں ہم پوچھنا چاہیں گے کہ اگر جیش محمد کے تین ٹھکانوں پر حملے کئے گئے ہیں تو پھر ان حملوں میں کتنے دہشت گرد مارے گئے۔
(2 اگر بالا کوٹ حملہ کئی انٹلیجنس اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا تو پھر اسی انٹلیجنس نے ہمیں پلوامہ کے بارے میں خفیہ معلومات کے بارے میں چوکسی کیوں نہیں کی ، اگر انٹلیجنس اطلاعات ملی تھیں تو پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ۔
(3 بعض نیوز رپورٹس میں دعوی ٰ کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے وزیر دفاع نرملا سیتا رامن کے علم میں لائے بناء پاکستان میں کارروائی کی ہے ایسے میں آئی ایس آئی اور مشیر قومی سلامتی NSA میں کچھ فرق ہے ۔

(4 وار میموریل (جنگوں میں شہید ہونے والوں کی یادگار) کے افتتاح کو وزیراعظم نریندر مودی اپوزیشن پر نکتہ چینی کیلئے استعمال کیا ؟ اس طرح کے سنگین مسئلہ پر وزیراعظم نے خاموشی اختیار کیوں کی ؟ آیا ہم سچائی جاننے کا حق نہیں رکھتے ؟ اب وزیر دفاع نرملاسیتا رامن اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ میڈیا کا سامنا کرنے سے کیوں شرما رہے ہیں ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب جاننے کا ہندوستان کو حق ہے۔ اگرچہ حکومت ان چاروں اہم ترین سوالات اور ان سوالات میں پائے جانے والے ذیلی سوالات کے جوابات نہیں دے پارہی ہے بلکہ وزیراعظم نریندر مودی ، صدر بی جے پی امیت شاہ ، وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے لے کر بی جے پی کے اہم قائدین اپوزیشن کو غیر اطمینان بخش انداز میں غیر ضروری باتیں کرتے ہوئے ان سوالات کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم ان جوابات کے راست جوابات دینے کی بجائے اپوزیشن پر یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ اپوزیشن قائدین کے بیانات سے پاکستان کو مدد مل رہی ہے ۔ اپوزیشن قائدین پا کستان کیلئے کام کر رہے ہیں۔ حکومت اور فوج کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ وزیراعظم نے صدر کانگریس راہول گاندھی کے اس الزام کو بھی مسترد کررہے ہیں کہ مودی حکومت مجبور ہے ۔ مودی جی کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت مجبور نہیں بلکہ مضبوط ہے اور ان کے ہاتھوں (بی جے پی حکومت میں) ملک محفوظ ہے لیکن حالیہ عرصہ کے دوران سارے ملک نے دیکھا ہے کہ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ رافیل معاملت سے متعلق اہم دستاویزات وزارت دفاع سے غائب ہے ، دستاویزات کا سرقہ کرلیا گیا ہے ۔ حکومت ان دستاویزات کے سارقین کی تلاش میں ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے کا دعویٰ کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی اوران کی بی جے پی حکومت جو رافیل معاملت کے اہم ترین بلکہ ان دستاویزات کی حفاظت نہیں کرسکی، وہ ملک کی کیا حفاظت کرے گی ؟ اس کے اقتدار میں سرحدیں کیسے محفوظ رہیں گی؟ ان دستاویزات کے غائب ہونے سے کہیں زیادہ سنگین مسئلہ ہماری داخلی سلامتی کو لاحق ہے ۔ کیونکہ ملک کی مضبوطی اس کی سلامتی اس کے محفوظ ہونے کا گہرا تعلق داخلی سلامتی امن و امان سے ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر ملک میں گاؤ رکھشک تحفظ گائے کے نام پر ہجومی تشدد کے ذریعہ درجنوں (زائد از 50 ) افراد کو قتل کرچکے ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ لو جہاد کے نام پر کئی مسلم نوجوانوں کے قتل کے واقعات پیش آچکے ہیں ۔ تبدیلی مذہب کے نام پر بے شمار گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا ، یہاں تک کہ ا یک ایسی معمر راہبہ کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی جس کی عمر 70 سال سے زائد تھی جبکہ ملک میں ہر روز بے شمار خواتین و لڑکیاں جنسی ہوس کا نشانہ بنائی جاتی ہیں ۔ صرف دہلی میں ’’پچھلے سال یعنی مئی 2018 ء تک عصمت ریزی کے 15,780 شکایات موصول ہوئیں تھیں۔ اگر ایک علاقہ کا یہ حال ہے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں پیش آئے عصمت ریزی کے واقعات کی تعداد کیا ہوگی ۔

مودی حکومت اپنے ہاتھوں میں ملک کے محفوظ رہنے کے دعویٰ کر رہی ہے جبکہ نوٹ بندی کے دوران بینکوں اور اے ٹی ایم کی قطاروں میں ٹھہر کر 150 سے زائد مرد و خواتین فوت ہوئیں۔ کروڑہا و متوسط خاندان پریشانی سے دوچار ہوئے ، کاروبار شدید متاثر ہوا ۔ جی ایس ٹی نے بھی ہندوستانی عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ۔ ادیبوں و شعراء اور دانشوروں کے منہ پر لگام لگانے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ گوری لنکیش جیسی بیباک صحافی کو ہندوتوا کے غنڈوں نے گولیاں مارکر قتل کردیا ۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سماج کے ہر طبقہ کو نشانہ بنایا گیا ۔ ایسے میں داخلی حالات دگرگوں کردیئے گئے ۔ بہرحال ہم بات کر رہے تھے مودی حکومت کے بارے میں اُٹھ رہے سوالات کی اور مودی کے ہاتھوں ملک کے محفوظ رہنے کی ، اس سلسلہ میں کانگریس کے ترجمان سرجے والا نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان حقائق سے مودی حکومت کی پول کھول کر رکھ دی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے 5 برسوں میں پاکستان نے جنگ بندی کی 5000 خلاف ورزیاں کی ہیں یعنی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں 1000 گنا اضافہ ہوا ہے اور پلوامہ دہشت گرد حملہ مودی حکومت میں کیا گیا 18 واں بڑا دہشت گرد حملہ ہے ۔ اس سے قبل اڑی دہشت گرد حملہ میں ہمارے 19 سپاہی مارے گئے تھے ۔ صرف جموں و کشمیر میں 448 جوان مارے گئے اور پاکستان کے دہشت گردانہ حملوں میں 280 عام شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے ۔ جہاں تک پلوامہ حملہ کے بعد سرجیکل اسٹرائیک کا سوال ہے حکومت کا دعویٰ ہے کہ بالاکوٹ میں جیش محمد کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا جس میں 300 دہشت گرد مارے گئے۔ ان میں دہشت گردوںکو تربیت فراہم کرنے والے کمانڈرس بھی شامل تھے لیکن اپوزیشن ان کے ثبوت مانگنے لگی تب مودی اینڈ پارٹی کی حالت کھسیانی بلی کھمبا نوچی کے موافق ہوگئی ۔ صدر بی جے پی امیت شاہ نے کہہ دیا کہ بالا کوٹ میں ہندوستانی فضائیہ کی کارروائی میں 250 دہشت گرد مارے گئے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب تک امریکہ اور اسرائیل ہی ایسے دو ملک تھے جو اپنے سپاہیوں کی موت کا انتقام لیا کرتے تھے لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہوئے ہندو ستان کو بھی اس فہرست میں شامل کروایا ۔ کانگریس کے ڈگ وجئے سنگھ کپل سبل ، نوجوت سنگھ سدھو ، اروند کجریوال ، ممتا بنرجی ، مایاوتی ، اکھلیش یادو، عمر عبداللہ ، فاروق عبداللہ ، چندرا بابو نائیڈو بھی سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت طلب کر رہے ہیں ۔ ڈگ وجئے سنگھ نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ نے پاکستان کے ایبٹ آباد میں القاعدہ سربراہ اُسامہ بن لادن کے خفیہ ٹھکانے پر حملہ کر کے ان کا صفایا کیا اور بطور ثبوت ویڈیو فوٹیجس اور تصاویر جاری کئے۔ مودی حکومت کو بھی ایسا ہی ثبوت دینا ہوگا ۔ کپل سبل نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے مودی کے علم میں یہ لایا کہ نیویارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ ، لندن سے کام کرنے والے جین گروپ ، ڈیلی ٹیلیگراف ، دی گارجین اور عالمی خبر رساں ایجنسی رائٹرس کی رپورٹس میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان کے بالاکوٹ میں دہشت گردوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
ڈگ وجئے سنگھ کے مطابق مودی دہشت گردی، پاکستان اور بالا کوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کو سیاسی رنگ دیکر اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کو اپنے بیانات کے ذریعہ شرمندہ کرنے والے نوجوت سنگھ سدھو نے سوال کیا ہے کہ حکومت کو یہ جواب دینا ہوگا کہ 300 دہشت گرد مار ے گئے ہیں یا نہیں ۔ انہوں نے یہ بھی سوال داغ دیا کہ آپ (مودی) نے دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتارا یا 300 درختوں کو اکھاڑا ؟ آیایہ انتخابی حربہ تو نہیں ؟ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مودی اونچی دکان پھیکا پکوان ہے یعنی باتیں بہت کرتے ہیں لیکن مودی جی کام نہیں کرتے ۔ شیوسینا نے بھی یہی موقف اختیار کیا کہ حقیقت جاننے کا قوم کو حق ہے جبکہ RAW (ریسرچ اینڈ انالائسس ونگ) کے سابق سربراہ وکرم سود نے تو واضح طور پر کہا کہ پلوامہ واقعہ ہماری انٹلیجنس ناکامی اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کا پتہ دیتا ہے ۔ بہرحال ساری ہندوستانی قوم کے سامنے یہ حقائق سامنے آنے چاہئے کہ مودی اور مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے ساری قوم کو بے خبر رکھتے ہوئے اس طرح کی کارروائیاں کیوں کیں ؟ جس میں ہمارے دو MiG 21 بائسن طیارہ تباہ ہوئے ، ایک پائلٹ کی گرفتاری اور پھر اس کی رہائی کے بعد ہمیں پشیماں ہونا پڑا۔ ایک پائلٹ اپنی زندگی سے محروم ہوگیا ۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اس قسم کے حساس مسئلوں پر سیاست نہ کر یں اور نہ ہی اپنے حقیر سیاسی مفادات کی تکمیل کو یقینی بنائیں۔ ساتھ ہی ہندوستانی قوم نے جو مذکورہ سوالات اٹھائیں ہیں اس کے جوابات بھی دیں۔