پوپ فرانسس کا دورۂ عراق

   

سوال مجھ سے یہ ہر گام پر کرے عالم
نہ جانے کونسی منزل کا ہے مسافر تو

عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کا دورۂ عراق کو عالمی سطح پر کافی اہمیت دی جارہی ہے ۔ وہ عراق کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے عیسائی پیشوا ہیں ۔ رومن کیتھولک چرچ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے عراق کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اپنی دشمنی ختم کر کے امن اور اتحاد کے لیے کام کریں ۔ پوپ نے اس علاقہ کے کئی شہروں کا دورہ کیا خاص کر نجف میں عراق کے نامور عالم علی السیستانی سے ان کی تاریخی ملاقات نے پرامن بقائے باہم کا پیغام دیا ہے ۔ یہاں پر پوپ نے ایک واضح پیام دیا کہ دنیا کو اب فسادات ، تشدد اور دہشت گردی ختم کر کے ہتھیاروں کو چپ کرانے کی ضرورت ہے تاکہ امن کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے ۔ پوپ فرانسس کی السیستانی سے ملاقات کو ایران نے کس تناظر میں لیا ہے یہ الگ بحث ہے لیکن پوپ فرانسس ایک ایسے مذہبی رہنما ہیں جو دوسرے عقائد رکھنے والے رہنماؤں تک پہونچنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی دو سال قبل انہوں نے جامعہ ازہر کے امام اعظم شیخ احمد ال طیب سے ملاقات کی تھی ابوظہبی میں ان دونوں عظیم رہنماؤں نے عالمی امن کے لیے انسانی زندگیوں کے تحفظ پر زور دیا تھا اور عقائد کی آزادی کے لیے مشترکہ اپیل کی تھی ۔ چنانچہ ان کا دورۂ عراق اور مختلف مذاہب کے قائدین سے ملاقات ایک علامتی لمحہ ہے ۔ عراق نے آیت اللہ السیستانی شیعہ مسلمانوں کے روحانی پیشوا ہیں ۔ ان کی اس ملاقات کا کئی گوشوں نے خیرمقدم کیا ۔ بعض نے پوپ کے اس دورے کو عراق میں عیسائی طبقہ کے افراد کی تعداد میں کمی اور سنی گروپس کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے کے واقعات کو روکنے کے لیے ایک کوشش قرار دیا ۔ عراق کی حالیہ تاریخ کئی نازک واقعات سے بھری ہوئی ہے ۔ تشدد اور مشکلات کے درمیان اب عراقی عوام کو امن کی جانب لے جانے کی کوشش ہورہی ہیں ۔ پوپ کے دورہ سے یہاں کے عوام کو یہ پیام تو حاصل ہوا ہے کہ دنیا میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ ہر کوئی تشدد اور فساد کی راہ ترک کردے ۔ پوپ کے دورہ نے عراق کے پڑوسی علاقہ کردستان کے عوام کو بھی راحت دی ہوگی ۔ کیوں کہ یہاں برسوں سے فرقہ وارانہ تنازعات ، داعش کے قبضے ، بدعنوانی اور حکومت پر بنیادی سہولتیں فراہم نہ کرنے کے الزامات ہیں اور عوام کے اندر ایک طرح کا غم و غصہ پایا جاتا تھا ۔ اب اس علاقہ میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ پوپ کے اس دورہ کو کامیاب قرار دیتے ہوئے عراق کی حکومت نے اظہار مسرت کیا کیوں کہ اس سے امن اور مذاہب کے درمیان دوستی مضبوط کرنے کی راہ ہموار ہوگی ۔ پوپ نے کہا کہ خدا کی عبادت اور اپنے پڑوسی کا خیال ہی اصل مذہبی فریضہ ہے ۔ اس دورہ کے حوالے سے دنیا کی مختلف تنظیموں نے اثباتی رائے ظاہر کی ہے تو ایران کی حکومت اور میڈیا نے تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے سازش قرار دیا گیا ۔ مشرق وسطی میں اسرائیل کے بڑھتے غاصبانہ عزائم کے درمیان امن پھیلانے کے نام پر اسرائیل کے وجود کو جائزہ قرار دینا ہے ۔ پوپ نے جہاں قیام امن کی بات کہی اور بین مذاہب کے درمیان باہمی تعلقات پر زور دیا وہیں انہوں نے فلسطین میں اسرائیلی زیادتیوں کو نظر انداز کردیا ۔ وہ تمام اقوام کے درمیان برادرانہ سلوک کو وسعت دینے کی خواہش کررہے ہیں لیکن اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں کی جانے والی کارروائیوں کے بارے میں خاموشی اختیار کررہے ہیں ۔ بہرحال پوپ فرانسس جہاں ایک طرف تمام اقوام کو بھائی چارہ سے رہنے کی تلقین کررہے ہیں ۔ وہیں بعض معاملوں میں ان کی خاموشی معنیٰ خیز ہے ۔ عراق کے شہر موصل کے دورہ میں گرجا گھر پر حملوں میں ہلاک افراد کے لیے یادگار بنانے کا سنگ بنیاد رکھا ۔ یہاں ان کا تاثر بھی غور طلب تھا کہ امید موت سے زیادہ طاقتور ہے اور امن جنگ سے زیادہ قوت رکھتا ہے ۔ پوپ نے ان تمام علاقوں کا دورہ کیا جہاں داعش کی کارروائیوں سے تباہی آئی تھی ۔ شہر موصل کو عراق میں عیسائیوں کا مرکز مانا جاتا ہے ۔ اس لیے پوپ نے یہاں دہشت گردی اور شدت پسندی کی مخالفت کی اور اسے مذہب سے غداری قرار دیا ۔ انہوں نے یہ تو اعتراف کیا کہ دہشت گردی اور تشدد کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔