پڑوسی : راحت یا زحمت

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
ایک مسلمان جانتا ہے کہ پڑوسیوں کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں اور یہ کہ کس طرح وہ آپس میں خلوص ، احترام اور حُسن سُلوک رکھیں۔ چاہے پڑوسی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’حُسنِ سلوک کرو والدین سے ، مسکینوں سے ، یتیموں سے ، ہمسایہ پڑوسیوں سے ، دور اور قریب کے ، اور اجنبی پڑوسی سے بھی ۔ (سورۃ النساء :۳۶)
رسول اﷲ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا : جبریلؑ مجھ کو نصیحت کرتے رہے پڑوسی کے تعلق سے اس حد تک کہ مجھے گُمان ہوا کہیں وہ جائیداد کا وارث نہ بن جائے ۔ (صحیح مسلم و بخاری )
حضور ﷺ نے مزید فرمایا : جو اﷲ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی سے حسن سلوک رکھے ۔ (صحیح مسلم و بخاری ) اور اُن کو تکلیف نہ پہنچائے ۔ صحابہ نے ایک مرتبہ حضور ﷺ کو فرماتے سنا : ’’واﷲ وہ مومن نہیں ہے ۔ واﷲ وہ مومن نہیں ہے ‘‘ ۔ انھوں نے پوچھا ’’کون یا رسول اﷲ ؟‘‘۔ آپ نے جواب دیا ’’وہ جس سے اُس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ‘‘ ۔
پوچھا گیا رسول اﷲ ﷺ سے ایک عورت کے بارے میں جو دن میں روزہ رکھتی تھی اور رات بھر عبادت کرتی تھی ۔ آپ ﷺ نے جواب دیا ’’وہ دوزخ میں ہے ‘‘ ۔ اﷲ اﷲ
اسلام ایک دین حق ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے خاتم النبیینؐ پر تمام مذاہب کا آخری مذہب بنایا اور دین کی تکمیل کی ۔ رسول اﷲ ﷺ پر حجۃ الوداع کے دوران یوم عرفات میں قرآن کی یہ آخری سورت نازل ہوئی ۔ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب سے مخاطب ہے ’’اور آج ہم نے آپ کے لئے آپ کا دین مکمل کردیا اور اپنی تمام نعمتیں آپ پر پوری کردیں اور آپ کے لئے اسلام کو دین پسند کیا ‘‘ ۔ ( سورۃ المائدہ :۳)
اﷲ کا سب سے بڑا کرم ہم پر یہ ہے کہ اُس نے ہمیں اُمتِ محمدیہ میں پیدا کیا ۔ ہمارا فرض ہے کہ اﷲ کے اس کرم پر ہم اُس کے شکرگذار رہیں ، قرآن اور محسنِ انسانیت ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو سنواریں ، ایک اچھے مسلمان اور ایک اچھے انسان بنیں ۔ کیونکہ اُن لوگوں کے ساتھ گذارہ ہوسکتا ہے جن کی طبیعت خراب ہو مگر اُن کے ساتھ نہیں جن کی تربیت خراب ہو ۔ قرآن اور سُنت کی پیروی کیجئے خود بخود اچھی تربیت ہوجائیگی ۔
اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے اچھا برتاؤ کریں۔ اُن کی مدد کریں جب وہ مدد مانگیں ، اُن کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک رہیں۔ اُن سے اچھی گفتگو کریں ۔ اُن کے بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئیں ۔ اُنھیں دین حق کی طرف راغب کریں ۔ اُن کی غلطیوں کو درگذر کریں ۔ اُن گھروں کے سامنے کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں۔ یہ سب حسن سلوک کے تقاضے ہیں ۔ جیسا کہ مذکورہ بالا سورۃ النساء میں اﷲ کا حکم ہے اور اتباعِ سنت کرتے ہوئے پڑوسی کو کوئی ضرر نہ پہنچائیں۔
رسول اﷲ فرماتے ہیں : ’’اگر تمہارا پڑوسی یہ کہے کہ ، تم نے اچھا کام کیا ہے تو تم نے اچھا کیا اور اگر یہ کہے کہ تم نے بُرا کام کیا تو تم نے بُرا کیا ‘‘ (مسند احمد) گویا کہ ایک انسان کے اچھے یا بُرے ہونے کی پہچان اُس کے پڑوسی سے کی جاسکتی ہے ۔ اگر کسی مسلمان کو اُس کے پڑوسی سے ضرر پہنچے تو وہ صبر و استقلال سے کام لے اور اﷲ سے دُعا کرتے رہے کہ اﷲ اُسے نیک توفیق و ہدایت دے ۔
ذرا اپنا محاسبہ کیجئے کہ آیا ہم اچھے پڑوسی ہیں یا نہیں ۔ یہ ہمارے لئے شرم کی بات ہے کہ آج کل کیا مسلم اور کیا غیرمسلم ہمیں کسی اچھے رہائشی علاقے میں آنے نہیں دیتے اور کوئی بھی ہمارا پڑوسی بننا نہیں چاہتا ۔ ہمیں اس بدنامی کو اپنے اچھے برتاؤ سے نیک نامی میں بدلنا ہوگا۔ وہ کیسے ؟ وہ ایسے ؎
حُسنِ کردار سے نورِ مجسم ہوجا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہوجائے