پھول تربت پہ چڑھانے کیلئے مت آنا

   

مانباپ کی فریاد: پردیس میں مضطرب’’یوسفِ گم گشتہ ‘‘ کے نام

یکم رمضان المبارک ۱۴۴۰؁ ھ کو میری والدہ ماجدہ نے طویل علالت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے پسماندگان کو ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دیدیا۔ آخری ایام ان کے لئے بہت تکلیف دہ رہے وہ شکرگزار اور نہایت صبر کرنے والی خاتون تھی ، سخت اور طویل علالت کے باوجود کسی وقت زبان پر حرف شکایت نہیں آیا ، وہ ہمیشہ فضل الٰہی کی اُمیدوار رہیں۔ وہ متعدد بار موت کے دلدل سے واپس آئی تھیں۔ آخری بار نومبر ۲۰۱۸؁ء کے اواخر میں وہ سخت بیمار ہوئیں ۹۹ فیصد اُمیدیں ختم ہوچکی تھیں، میں پریشانی میں امریکہ سے روانہ ہوا ۔ دوران سفر ہی ان کی حالت میں بہتری ہونے لگی ، مجھے پاس دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئیں اور فرطِ خوشی سے نرس کو کہنے لگیں ’’یہ میرا بیٹا ہے ، امریکہ میں رہتا ہے ، میری خبر سنکر آگیا ، ایرپورٹ سے سیدھا دواخانہ کو آیا ‘‘ ۔ اور ایک مرتبہ مجھے بلایا ، اپنے پاس بٹھایا اور کہنے لگی ’’تم میری نماز جنازہ پڑھانا اور اگر تم نہیں آسکے تو میری نماز غائبانہ پڑھنا اور میری مغفرت کیلئے خوب روکر دعاء کرنا ‘‘ ۔ وہ اپنی صحت سے مایوس ہوچکی تھیں اور وہ اپنی اولاد کو آس بھری نظروں سے دور جانے تک دیکھتے رہیں شاید پھر انھیں نہ دیکھ سکے گویا زبان حال سے کہتیں :
میرے یوسف میرے گم گشتہ پیارے بیٹے
دل کی ٹھنڈک ہو میری آنکھوں کے تارے بیٹے
چاند کے مثل بہت دور ہوگئے ہو بیٹے
پھر بھی آنکھوں کے لئے نور بنے ہو بیٹے
امریکہ میں رمضان المبارک کی دوسری تراویح پڑھ کر نہایت بے چین و بے قرار بستر پر لیٹا رہا ، دیڑھ بجے شب فون کی گھنٹی بجی ، ہوش اُڑگئے، بھائی کا فون اُٹھانے کی ہمت نہ تھی بالآخر والدہ کے وصال کی افسوسناک خبر ملی جبکہ میرا پاسپورٹ انڈیم ایمبیسی میں Renewal کیلئے دیا ہوا تھا ، آخری دیدار اور نماز جنازہ میں شرکت سے محرومی ہوئی ۔ امریکہ میں مقیم کمیونٹی نے اس مشکل وقت میں بہت ساتھ دیا اور ہر ایک تعزیت کے ساتھ پردیش کی مجبوریوں اور محرومیوں کاذکر کرنے لگا ۔ انہی تعزیت کرنے والوں میں ایک پروفیسر سعیدالرحمن فاروقی ہیں ، وہ گورکھپور انڈیا سے تعلق رکھتے ہیں ، امریکہ میں Palmer College Of Chiropractic میں فیزیالوجی کے پروفیسر رہے ۔ وہ تقریباً 72 سال سے متجاوز ہوں گے ، بڑے درد اور افسردگی کے ساتھ انھوں نے تعزیت کی اور مجھ سے کہا آپ تو گاہے گاہے جاتے رہے ، ملتے رہے لیکن ہم اپنے والدین سے مل بھی نہیں سکے ۔ انھوں نے مزید کہا : جب ایک مرتبہ میرا انڈیا جانا متوقعہ تھا اور کسی وجہ سے میں نہیں جاسکا تو اس کیفیت سے متاثر ہوکر میرے والد محمد شمس الہدی قیسیؔ الفاروقی نے ایک نظم کہی تھی جو درحقیقت ہر مانباپ کے قلبی جذبات کی عکاس ہے جس کی اولاد بیرون ملک مقیم ہے اور اپنے مسائل کی وجہ سے اپنے مانباپ کی ملاقات اور ان کے دیدار سے محروم ہیں۔ فرماتے ہیں ؎
روشنی میری بڑھانے کیلئے آجانا
پیرہن منہ سے ہٹانے کیلئے مت آنا
گل محبت کے کھلانے کیلئے آجانا
خار فرقت کے چبھانے کیلئے مت آنا
مجھ کو سینے سے لگانے کیلئے آجانا
پھول تربت پہ چڑھانے کیلئے مت آنا
اپنی دادی کی دعاؤں کیلئے آجانا
چھوڑکر پھر ہمیں جانے کیلئے مت آنا
بھائیوں کو تو ہنسانے کیلئے آجانا
اپنی اماں کو رُلانے کیلئے مت آنا
اپنی شدد کو منانے کیلئے آجانا
اس سے آنکھوں کو چرانے کیلئے مت آنا
اپنے بابو کو میں سینے سے لگا پاؤں گا
اپنی تارا کو کلیجے میں بٹھا پاؤں گا
یہ نہیں جانتا پر آس لگا رکھی ہے
اب تو ہر وقت یہی دل میں دعا رکھی ہے
شادماں کامراں وہ تم کو جہاں میں رکھے
تم کو اﷲ حفاظت میں اماں میں رکھے
ایک مرتبہ میں نے اپنے پیر و مرشد ابوالخیرات سید انواراللہ شاہ نقشبندی مجددی و قادریؒ نبیرۂ محدث دکنؒ سے عرض کیا تھا کہ یہ خاکسار آپ کی خدمت سے محروم ہے جبکہ دیگر مریدین گرچہ وہ دینی علم سے زیادہ واقف نہیں لیکن خدمت میں بہت آگے ہیں تو حضرت قبلہ علیہ الرحمۃ نے فرمایا : حافظ صاحب ! تکلیف نہیں دینا ہی بہت بڑی خدمت ہے ۔ یہ جملہ ہمیشہ میرے ذہن و دماغ میں گھومتے رہتا ہے ۔ ایک مرتبہ تراویح میں میں نے سورۂ آل عمران کی تلاوت کی اور اسی میں حضرت زکریاؑ کا اولاد کے لئے بارگاہ ایزدی میں دعاء کا ذکر ہے ۔ ان آیات کو بڑھتے وقت میری آواز کچھ تبدیل ہوگئی ، دو دن بعد ایک یمنی نے مجھ سے خصوصی ملاقات کی اور کہا کہ شیخ ! حضرت زکریاؑ کی دعاء کے وقت آپ کی آواز متاثر ہوئی ۔ آپ اولاد کے لئے دعا ء کرتے ہیں اور میری اولاد نے مجھے اتنی تکلیف دی ہے کہ میں تمنا کرتا ہوں کہ کاش مجھے اولاد ہی نہ ہوتی ۔ ایک عراقی خاتون نے مجھ سے سوال کیا ۔ آپ کو کتنے بچے ہیں ؟ میں نے جواب دیا مجھے اولاد نہیں ہے ۔ اس نے پھر پوچھا شادی ہوکر کتنا عرصہ ہوا ؟ میں نے جواب دیا چودہ سال ہوگئے ۔ اس خاتون نے میرے لئے دعائیں کیں پھر درد بھرے لب و لہجہ میں کہنے لگی شیخ ! جب اولاد تکلیف دیتی ہے تو یہ عمر میں خیال ہوتا کہ کاش مجھے اولاد نہ ہوتی تو اچھا ہوتا ۔
میں نے دارالافتاء جامعہ نظامیہ میں بحیثیت نائب مفتی چند سال خدمت انجام دی ہے ۔ ایک مرتبہ میرے پاس ایک ضعیف خاتون اپنے چار نوجوان بچوں کے ساتھ آئی ان کے درمیان کچھ نزاع تھا ، دوران گفتگو اس ضعیف خاتون نے اپنے بڑے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مولوی صاحب! یہ میرا بیٹا مجھ کو یہ الفاظ کہا ہے ( گندے گالیاں) دیتا ہے ۔
اس بوڑھی ماں کے آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے ، وہ منظر اپنی زندگی میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے : میں ایسا کوئی عمل نہیں جانتا جو ماں کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ اﷲ کے نزدیک مقرب ہو ۔ ( بخاری ۔ الادب المفرد ص : ۳۵)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے طیسلہ بن میاس سے پوچھا کیا تم دوزخ سے ڈرتے ہو اور جنت میں جانا چاہتا ہو ۔ انھوں نے کہا : ہاں ! تو آپ نے پوچھا کیا تمہارے والدین حیات ہیں ، انھوں نے کہا : میری والدہ حیات ہیں ۔ فرمایا : بخدا ! اگر تم ان سے نرم گفتگو کرو اور ان کو کھانا کھلاؤ تو تم ضرور جنت میں داخل ہوجاؤ گے بشرطیکہ تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو۔ (الادب المفرد ص ۳۴۰)
جب ایاس بن معاویہؓ کی والدہ فوت ہوئیں تو وہ رونے لگے ، پوچھا گیا: آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ جواب دیا : میرے لئے جنت کے دو دروازے کھلے تھے ان میں سے ایک بند ہوگیا ہے ۔ ( کتاب البر و الصلۃ ، ابن جوزی ص : ۷۳)
حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں : جو پنجوقتہ نماز پڑھتا ہے گویا اس نے اﷲ کا شکر ادا کیا اور جو ہر نماز کے بعد والدین کے لئے دعاء کرتا ہے یقینا اس نے اپنے والدین کی شکرگزاری کی ۔ ( فتح الباری جلد دوم ص : ۱۰)
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں : والدین کی دعاء مال اور اولاد کو ثابت رکھتی ہے اور ان کی بددعاء مال اور اولاد کو تباہ کردیتی ہیں۔ ( ابن جوزی، البر و الصلۃ ص :۱۲۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں قرآن پاک میں تین آیات تین چیزوں سے ملتی ہوئی ہیں ان میں سے کوئی دوسرے کے بغیر قبول نہیں ہوتی :
(۱) اطع
رسول کی اطاعت کے بغیر اﷲ کی اطاعت قبول نہیں (سورۃ التغابن:۱۲)
(۲) واق
زکوٰۃ کی ادائیگی کے بغیر نمازیں قبول نہیں ۔ ( سورۃ البقرہ:۴۳)
(۳) ان اشکر
والدین کی شکرگزاری کے بغیر اﷲ کا شکر ادا نہیں ہوتا ۔ (سورۃ لقمان:۱۴)
نیز والدہ کی بددعا قبول ہوتی ہے اور والدین کا نافرمان رحمت الٰہی سے محروم رہتا ہے ۔