پہلو خان معاملے میں برات پر جسٹس چندراچوڑ کا اہم تبصرہ۔ ویڈیو

,

   

”میں آپ کو یہ بتانا چاہتاہوں کہ جج بننے کی ایک بڑی مشکل‘ کیونکہ ثبوت کی بنیاد پر ہمیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے‘کیونکہ اس کا موقف اور پھر آپ پتہ چلا ہے کہ یہ پولیس کی جانکاری اسقدر غیرموثر ہے جس کے نتیجہ میں ایک برات سامنے ائی ہے“

ممبئی۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ‘ سپریم کورٹ کے ایک جج نے ہفتہ کے روز کہاکہ ایسے معاملات جس میں عدالتیں تحقیقات کے مجاز ہوتی ہیں اس کے”بہتر نتائج برآمد ہوتے دیکھائی دئے ہیں“۔

YouTube video

جسٹس چندرا چوڑ نے کہاکہ ”معاملات‘ جو عدالتوں میں درخواستوں کی شکل میں مقرر وقت میں رجو ع ہوتے ہیں‘ جن کی تحقیقات عدالتوں کی نگرانی میں ہوتی ہے‘ اس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں“۔

ہوٹل اوبرائے ٹریڈنٹ میں ”ارٹس کی شکل میں آزادی کا تصور“ کے عنوان پر پچاس منٹ کے لکچرر کے دوران انہوں نے کہاکہ کلاکاروں کی آواز کو حکومتوں کی جانب سے دبانے کی کوشش قابل مذمت ہے۔

پہلو خان معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مزیدکہاکہ ”میں آپ کو یہ بتانا چاہتاہوں کہ جج بننے کی ایک بڑی مشکل‘ کیونکہ ثبوت کی بنیاد پر ہمیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے‘

کیونکہ اس کا موقف اور پھر آپ پتہ چلا ہے کہ یہ پولیس کی جانکاری اسقدر غیرموثر ہے جس کے نتیجہ میں ایک برات سامنے ائی ہے“۔

پہلو خان جوکہ میویشوں کی خرید وفروخت کرنے والے ایک ڈائیری فارم کسان تھے کو گاؤں رکشکوں نے الور ضلع میں 2017کے دوران گاؤ تسکری کے شبہ میں ہلاک کردیاتھا۔

الو رکی ایک عدالت نے جمعرات کے روزناکافی ثبوت او رشواہد کی بناء پر اس واقعہ کے تمام چھ ملزمین کو بری کردیاتھا۔

تاہم راجستھان کی اشوک گہلوٹ حکومت نے کہاکہ وہ اس فیصلے کے خلاف اونچی عدالت میں اپیل کرے گی۔

جمعہ کے روز کانگریس حکومت نے اعلان کیاکہ وہ ایک ایس ائی ٹی کی تشکیل عمل میں لائے گی جو الور ہجومی تشدد کی تازہ طریقے سے جانچ کرے گی۔

یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک این جی او سی ایچ آر ائی نے بھی دعوی کیاہے کہ پولیس کی تحقیقات میں سنگین کوتاہیاں اور خامیاں ہیں۔

انہوں نے نوٹ کیاکہ ”الور ضلع عدالت کا پہلو خان کے قتل میں فیصلہ پولیس تحقیقات او راس کے طریقے کار میں بڑی خامیوں اور کوتاہی کانتیجہ ہے“۔

سی ایچ آر ائی کی ہندوستانی عاملہ بورڈ(ای سی) جس میں ممتازشخصیتیں بشمول سابق سپریم کورٹ چیف جسٹس مدن لوکر‘

سابق دہلی ہائی کورٹ چیف جسٹس اے پی شاہ ہیں نے کہاکہ ”یہاں پر فیصلے کے حصوں جس میں پولیس کی کمزور تحقیقات کواجاگر کیاہے اوراس طرح کے حساس معاملے میں موثر نگرانی کی عدم موجودگی کی طرف بھی اشارہ ہے“