پی ایم مودی کے مضحکہ خیز دعوے بی جے پی قائدین خاموش!

   

رویش کمار
ڈیجیٹل کیمرہ کب دنیا میں ایجاد ہوا، کب اسے ہندوستان میں متعارف کرایا گیا، کب ای میل دنیا میں شروع کیا گیا اور کب ای میل کی ہندوستان میں شروعات ہوئی؟ چونکہ وزیراعظم نے یہ جوابات ایک انٹرویو میں دیئے ہیں، اس کے بعد 2019ء الیکشن کا آخری مرحلہ کوئز شو میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کتنے لوگ اس سوال پر الجھن میں تھے کہ کون جیتے گا، بی جے پی کو کتنی نشستیں ملیں گی، یو پی میں اتحاد کا کیا ہوگا… اب تمام لوگ یہ جاننے میں مصروف ہوگئے ہیں کہ ڈیجیٹل کیمرہ انھیں کب نصیب ہوا۔ نہ صرف یہ بلکہ ای میل کی شروعات کا بھی پتہ چلایا جارہا ہے۔ ٹی وی چیانل ’نیوز نیشن‘ کو انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا: ’’ہوسکتا ہے ملک میں کہیں رہا ہوگا، لیکن میں نے سب سے پہلے ڈیجیٹل کیمرہ استعمال کیا۔ 1987-88ء میں چند لوگ ہی ای میل سے متعارف تھے۔ میں نے اُن دنوں ویرمگام تحصیل میں اڈوانی جی کے جلسہ میں اُن کی تصویر ڈیجیٹل کیمرہ سے لی جو کافی بڑی جسامت کا ہوا کرتا تھا، پھر میں نے تصویر کو دہلی ارسال کردیا۔ دوسرے دن رنگین تصویر چھپ گئی اور اڈوانی جی متعجب ہوئے کہ کس طرح میری کلر فوٹو اگلے ہی روز شائع ہوگئی!

وزیراعظم چونکہ بٹوہ نہیں رکھتے، اس لئے وہ ڈیجیٹل کیمرہ شاید کیاشلیس طریقے سے خریدے ہوں گے یا پھر بارٹر سسٹم (چیز کے بدلے چیز خریدنا) کے ذریعے خریدے ہوں گے جو تب کئی جگہ رائج تھا۔ آج بھی گاؤں میں کئی لوگ آئسکریم کے بدلے دھان خریدتے ہیں۔ لیکن کیا تب کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ بھی دستیاب تھے؟ اب اس طرح آپ وزیراعظم کے جواب کے بارے میں ریسرچ کرنے لگیں تو آپ اُس دور میں پہنچ جائیں گے جہاں شاید آپ کھوجائیں گے۔ چونکہ وزیراعظم کا پیام دور دور تک پہنچتا ہے، اس لئے لوگوں کی توجہ میں آنا فطری بات ہے۔ اگر معلومات درست نہ ہوں تو عوام کے ذہنوں میں غلط بات رہ جائے گی۔ کانگریس کے احمد پٹیل نے کہا کہ اُن کی یادداشت کے مطابق پبلک انٹرنٹ کی شروعات 1995ء میں ہوئی۔ وہ نہیں جانتے کہ 1987-88ء میں آخر کس نے ای میل کا استعمال کیا تھا؟
کیا وزیراعظم سے تاریخ کے معاملے میں غلطی ہوگئی؟ بعض اوقات لائیو انٹرویوز کے دوران کچھ باتیں زبان سے غلط نکل جاتی ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اس کی وضاحت وزیراعظم اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر کردیتے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو خوشی ہے کہ وہ اپوزیشن کو الجھا رہے ہیں کہ اُن کی توجہ بٹ کر کم از کم ڈیجیٹل کیمرہ اور ای میل کے بارے میں ریسرچ تو ہونے لگی ہے۔ راجیو گاندھی کی حکومت میں 31 مارچ 1986ء کو ودیش سنچار نگم لمیٹیڈ نے ای میل (الیکٹرانک میل) پر کام شروع کیا۔ 1991ء میں ہندوستان میں گاندھی جینتی کے روز وی ایس این ایل نے اسے لانچ کیا ۔ تب نرسمہا راؤ وزیراعظم تھے۔ 24 فبروری 1992ء تک دیکھیں تو ہندوستان میں صرف 100 ای میل یوزرس یا سبسکرائبرس تھے۔ منتخب اداروں جیسے بھابھا اٹامک ریسرچ سنٹر کے پاس ای میل کی سہولت دستیاب تھی۔ یہ مواد ٹائمز آف انڈیا مورخہ 24 فبروری 1992ء سے لیا گیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ وی ایس این ایل کے مطابق ہر ماہ 25 نئے سبسکرائبرس شامل ہورہے ہیں۔ اور پھر ای میل کے ساتھ پہلی مرتبہ مارچ 1992ء میں کچھ منسلک کیا گیا جو ایک تصویر تھی۔ وہ ای میل بھیجنے والے کا نام نتھانیل بورنسٹین تھا۔ مودی نے کہا ہے کہ 1987-88ء میں انھوں نے فوٹو اٹائچ منٹ (منسلکہ ) بھیجا۔ وزیراعظم کی بات غلط ہے۔ انٹرنٹ اور ای میل کا فرق بھی جاننا چاہئے۔ ہندوستان میں انٹرنٹ سرویس 15 اگست 1995ء کو شروع کی گئی۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ موبائل فون سے پہلا کال 1995ء میں چیف منسٹر مغربی بنگال جیوتی باسو نے کیا تھا۔ اگست 1995ء میں جیوتی باسو نے مرکزی وزیر سکھ رام کو کیا تھا۔

مگر وزیراعظم ای میل کے تعلق سے کچھ اور ہی بول رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اُس انٹرویو میں جس کا ایک حصہ کافی ٹوئٹ کیا جارہا ہے، وہ پہلے سے لکھے گئے سوالات کا امیج ہے۔ یہ اچھا نہیں ہے۔ کانگریس کی دیویا وندنا نے ٹوئٹ کیا ہے کہ انٹرویو کا ایک حصہ نیوز نیشن کو دیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سوالات پہلے ہی تحریر کرلئے گئے۔ جب شاعری سے متعلق سوال ہوتا ہے تب وزیراعظم ایک فائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں نظم تحریر ہے۔ لیکن اگلے ہی شاٹ میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاعری کا کاغذ اُن کے ہاتھ میں ہے اور شاعری سے متعلق سوال اُس صفحہ پر تحریر ہے۔ جواب بھی ٹائپ شدہ ہے۔ پہلے ہی یہ الزام عائد ہے کہ وزیراعظم پہلے سوالات پوچھتے ہیں اور پھر جوابات دیتے ہیں۔ جس طرح کا سوال پہلے سے تحریر ہے بالکلیہ اسی انداز میں وزیراعظم سے سوال پوچھا جاتا ہے۔ مودی کہتے ہیں کہ اُن کی ہینڈرائٹنگ اچھی نہیں لیکن شاعری ٹائپ شدہ ہے اور ہاتھ کی تحریر بھی اسی صفحہ پر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نظم ابھی تازہ لکھی گئی، لیکن اسی کاغذ پر یہ سوال لکھا ہے جو انٹرویو لینے والے نے پوچھا۔ انٹرویو لائیو ہو یا ریکارڈ شدہ کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ سوال پہلے سے طے تھا۔ وزیراعظم کا انٹرویو پبلک پراپرٹی ہوتا ہے۔ اسے انھوں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر پیش بھی کیا ہے۔ اگر سوالات پہلے ہی طے کرلئے جائیں تو انٹرویو کا اعتبار مشکوک ہوجاتا ہے۔

13 مئی کا روز تھا، دہلی کے آسمان پر بادل چھائے تھے اور پھر تاریکی چھاگئی۔ ایک طیارہ جو ہمارے کیمرے کے گھیرے میں آیا، وہ ریڈار (radar) کی زد میں نہیں آیا کیونکہ بادل چھایا تھا یا موسم خراب ہوچلا تھا۔ ایئر ٹریفک کنٹرول سے وابستہ لوگ حیرت زدہ ہوگئے۔ ریڈار اسٹیشن ملک بھر میں کئی مقامات پر بنائے جاتے ہیں۔ ریڈار اسٹیشن سے الیکٹرو میگنیٹک ویووز (electromagnetic waves) لگاتار آسمان کی طرف جاتی رہتی ہیں۔ وہاں وہ معروف اور غیرمعروف ٹارگٹس (یا اجسام) سے ٹکرا کر اُسی ریڈار کو واپس آتی رہتی ہیں۔ یہ لہریں روشنی کی رفتار پر چلتی ہیں۔ ریڈار مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ ان کی رینج مختلف ہوتی ہے۔ یہ میری جانکاری کی بنیادی باتیں ہیں۔ میں اس میں بہتری لانے کیلئے تیار ہوں۔ وزیراعظم کو بھی بادلوں کے بارے میں اپنے بیان میں بہتری لانا چاہئے۔ ویسے، اس کا انتخابی امکانات پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں!
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ لوگ عام طور پر کوئی کورس بس کورس سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ کورس سے ان کے علم میں اضافہ ہونا چاہئے۔ فرض کیجئے کہ راہول گاندھی نے ریڈار اور ای میل والی غلطیاں کی ہوتیں تو وزیراعظم سے وزیر تک سب مل کر ہر ریلی میں طوفان مچاتے۔ ہر اخبار کے صفحہ اول پر شہ سرخی کے ساتھ اسے چھاپا جاتا۔ اسی بہانے ہندوستان میں کم از کم سائنس پر بات ہونے لگی ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جہاں ریڈار سے معلوم کرنا ضروری ہے کہ کسی دلہے کی بارات کیوں روکی گئی؟ گجرات میں گزشتہ چند دنوں میں اس طرح کے چار واقعات پیش آئے جن میں درج فہرست طبقات (ایس سیز) کے دلہوں کی باراتوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔ وہ اس لئے کہ اونچی ذات کی خواتین سڑک پر پوجا کررہی تھیں۔ اُن کا یگنہ شروع ہوچکا تھا۔ سوچئے کہ کس حد تک کمتر سلوک کیا جارہا ہے۔ دلہا اور دلہن بارات کے ساتھ تیار ہیں لیکن اُن کی ذات کے سبب انھیں روکا جارہا ہے۔ ایسی خواتین کے قانون شکنی کی پاداش میں خلاف ضرور کیس درج ہونا چاہئے۔ یہ سب دستوری باتیں بچوں کو اسکول میں ہی سکھانا چاہئے۔ جب تک گجرات میں اس طرح شیڈولڈ کاسٹ کی باراتوں کا راستہ روکا جاتا رہے ، وہاں کے لوگوں کو دستور سکھانا چاہئے۔ جس گاؤں کی بارات روکی گئی وہاں اتنی کشیدگی بڑھی کہ پولیس کیمپ کا نظارہ ہونے لگا۔ دستور ہر کسی کو برابر سمجھتا ہے، لیکن دستور کا جذبہ لوگوں میں مساوی نہیں رہا ہے۔ اس طرح کا واقعہ گجرات کے ضلع اروالی میں موداسا کے کھبیسر گاؤں میں پیش آیا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہوا۔ ایسا ہر سال ہوتا ہے۔ نہ صرف گجرات بلکہ مدھیہ پردیش اور اترپردیش میں بھی ہوتا ہے۔ دلہوں کو گھوڑیوں پر بیٹھنے سے بھی روکا جاتا ہے۔ چنانچہ اسی طرح متاثرہ ایک بارات میں ماین پولیس سکیورٹی اور نظم و نسق کی نگرانی میں شادی انجام پائی۔ بعض جگہوں پر پولیس نے اچھا کام کیا۔ لیکن ایک جگہ پولیس آفیسر کے خلاف شکایت درج کرائی گئی کہ اُس نے ایس سی طبقات کو گالیاں دیں۔ گاندھی نگر رینج کے آئی جی ماینک سنگھ نے کہا کہ کارروائی کی جائے گی۔ اس طرح کے تمام واقعات پر کیا ہم شرمندہ ہیں؟
یہ ہماری اسوسی ایٹ جرنلسٹ ہرشا کماری سنگھ کی رپورٹ ہے۔ 26 اپریل کو پانچ افراد نے الور پولیس اسٹیشن حدود میں ایک عورت کا اغوا کیا اور گینگ ریپ کیا۔ اس کا ویڈیو بنایا اور بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کی ۔ 30 اپریل کو متاثرہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ الور ایس پی سے رجوع ہوئی۔ لیکن الیکشن کے سبب ایف آئی آر 2 مئی کو درج کی گئی۔ الور میں 6 مئی کو پولنگ ہوئی اور 7 تا 9 مئی کے درمیان کارروائی میں ملزمین کو گرفتار کیا گیا۔ الیکشن کے سبب کارروائی نہیں ہوئی۔ اس رپورٹ میں چیف منسٹر اشوک گہلوٹ نے پولیس کی غلطی کا اعتراف کیا۔ ایس پی الور کا تبادلہ کردیا گیا۔ وزیراعظم مودی اور مایاوتی نے کانگریس حکومت کو نشانہ بنایا لیکن وزیراعظم تو مایاوتی کو بھی نشانہ بنانے لگے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کیوں مایاوتی کانگریس کی حمایت کررہی ہیں جبکہ راجستھان حکومت کچھ نہیں کررہی ہے۔ مایاوتی نے کرارا جواب دیا لیکن زبان قابل اعتراض ہوگئی۔ وزیراعظم راجستھان کے واقعہ کا ذکر تو کررہے ہیں، انھیں گجرات میں ایس سی طبقات پر حملے پر بھی بات کرنا چاہئے۔
ravish@ndtv.com