چنمیانند کے خلاف الزامات

   

ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ لیتے ہیں لوگ
آنکھ کے پانی کو بھی رونا سمجھ لیتے ہیں لوگ
چنمیانند کے خلاف الزامات
سابق مرکزی وزیر و بی جے پی لیڈر سوامی چنمیانند کے خلاف شاہجہاں پور میں قانون کی ایک طالبہ نے عصمت ریزی اور جسمانی ہراسانی کا الزام کھل کر عائد کردیا ہے ۔ یہ لڑکی دعوی کرتی ہے کہ اس نے شاہجہاں پور پولیس میں بھی چنمیانند کے خلاف عصمت ریزی کی شکایت درج کروائی تھی لیکن شاہجہاں پور پولیس نے بی جے پی لیڈر کے خلاف ایسا مقدمہ درج کرنے سے گریز کیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر جو ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے اس کے بعد تحقیقات میں یہ قدرے تیزی پیدا ہوگئی ہے لیکن یہ اندیشہ ضرور لاحق ہے کہ چنمیانند اور بی جے پی کے حلقے اس ایس آئی ٹی پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کرینگے ۔ یہ شبہات اس لئے پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ جو ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے اس نے لڑکی کا بیان تقریبا گیارہ گھنٹوں تک قلمبند کیا گیا ہے ۔ ایک عصمت ریزی کا شکار لڑکی سے اگر گیارہ گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی جاتی ہے اور جس پر الزام عائد کیا جا رہا ہے اس سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا تو ایسے شبہات پیدا ہوتے ہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس لڑکی کے رشتہ داروں کو بھی پولیس لائین طلب کرتے ہوئے مسلسل پوچھ تاچھ کی گئی ہے ۔ لڑکی کا کہنا ہے کہ چنمیانند نے نہ صرف اس کی عصمت ریزی کی بلکہ ایک سال تک مسلسل اس کا استحصال کیا جاتا رہا ہے لیکن پولیس میں شکایت کے باوجود کوئی مقدمہ درج نہیںکیا گیا ہے ۔ چنمیانند ایک با اثر لیڈر ہیں اور ان کی پارٹی اترپردیش اور مرکز دونوں میں برسر اقتدار ہے ۔ ایسے میںتحقیقاتی عمل پر اثر انداز ہونے کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا لیکن جو ایس آئی ٹی ہے اسے اپنا کام پوری دیانتداری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ عصمت ریزی کا شکار لڑکی کی شکایت کو حیلے بہانوں کے ذریعہ پس پشت نہیں ڈالا جانا چاہئے بلکہ اسے انصاف دلانے کی کوشش کی جانی چاہئے اور اس بات پر کوئی امتیاز نہیں برتا جانا چاہئے کہ جس کے خلاف الزام عائد کیا جا رہا ہے وہ ایک با اثر اور برسر اقتدار پارٹی کا لیڈر ہے ۔ کسی سیاسی مداخلت کو قبول کئے بغیر تحقیقاتی عمل کو پایہ تکمیل کو پہونچانے پر ایس آئی ٹی کا دھیان ہونا چاہئے ۔
قانون کی اس طالبہ نے سب سے پہلے گذشتہ مہینے فیس بک پر ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا تھا جس کے دوسرے ہی دن وہ اپنے ہاسٹل سے لاپتہ ہوگئی تھی ۔ بعد میں جب سپریم کورٹ نے اس معاملہ کا نوٹ لیا تو اچانک ہی لڑکی کی راجستھان سے دستیابی کا اعلان کردیا گیا ۔ اب لڑکی سے ایس آئی ٹی نے تقریبا گیارہ گھنٹوں تک سوالات کئے ہیں اور لڑکی کا کہنا ہے کہ اس نے ہر ممکنہ طریقہ سے ایس آئی ٹی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے میں اب ایس آئی ٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک متاثرہ لڑکی کو انصاف دلانے کیلئے پیشہ ورانہ دیانت اور مہارت کا مظاہرہ کرے۔ افسوس کی بات یہ ہے اترپردیش کی پولیس نے لڑکی سے انصاف نہیں کیا تھا اور مسلسل شکایات کے باوجود عصمت ریزی کا مقدمہ درج کرنے سے گریز کیا گیا ۔ جہاں تک مقدمات کی بات ہے تو متاثرہ کے دعوی کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے اور الزام کی سچائی کا فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے ۔ پولیس کو اپنے طور پر ایسا کوئی رول ادا نہیں کرنا چاہئے کہ وہی الزامات کو درج کرنے سے پہلے ہی صحیح یا غلط کا فیصلہ سنادے ۔ یقینی طور پر شکایت کی نوعیت اور ثبوتوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے لیکن اس بہانے سے متاثرہ کو انصاف رسانی میں کوئی تاخیر نہیں کی جانی چاہئے اور نہ ہی ملزم کے با اثر ہونے پر کوئی دوہرا معیار تحقیقات میں اختیار کیا جانا چاہئے ۔
بی جے پی مرکز میں اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں برسر اقتدار ہے ۔ حکومت بیٹی بچاو ۔ بیٹی پڑھاو کا نعرہ دیتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کے قائدین ہی پر مسلسل خواتین و لڑکیوں کی عصمت ریزی اور ان کے استحصال کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ اترپردیش میں بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر پہلے ہی عصمت ریزی کے الزام میں جیل میں ہیں اور چھوٹے قائدین بھی ایسے کئی ہیں جو اس طرح کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اب سابق مرکزی وزیر الزامات کے گھیرے میں ہیں ۔ یو پی پولیس کو اس طرح کے معاملات میں سیاسی وابستگی کا خیال کئے بغیر متاثرین کی مدد کیلئے اپنے پیشے سے دیانتدارانہ طور پر انصاف کرنا چاہئے ۔ پولیس کی یہی ذمہ داری اور فریضہ ہے اوراس فریضہ کی تکمیل کیلئے پولیس کو ہمیشہ دیانتداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔