چوکییدار بننے کاشوق ۔ شکیل شمسی

,

   

جب ہم کبھی چوکیدار کا تصور کرتے تھے تو ہمار ے سامنے نیپال سے تعلق رکھنے والے کسی گھورکے کی تصویر ابھر اتی تھی ،جو رات کے سناٹے میں لاٹھی پٹخ پٹخ کر جاکتے رہو کی صدا لگاتا تھا ۔مگر اب کچھ دنوں سے چوکیدار کا خیال آتے ہی اچانک نریندر مودی کی تصویر سامنے آتی ہے ، کیونکہ ان کی طرف سے کافی دنوں سے کوشش ہو رہی ہے کہ اس بار ان کو ملک ایک چائے بیچنے والے کی شکل میں نا دیکھیں بلکہ گھر اور محلہ کی حفاظت کرنے والے چوکیدار کی صورت سے دیکھیں ۔مگر ان کوششوں کو راہل گاندھی نے بہت ہوشیاری سے ناکام کردیااور چوکیدار کے ساتھ چور ہے کا جملہ جوڑ دیا اور بات یہاں تک پہونچ گئی کہ کسی بھی بڑے ہجوم میں جب راہل گاندھی ’چوکیدار‘ کہتے ہیں تو پورا مجمع ایک اواز میں کہتا ہے کہ چور ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں اپنی پوری طاقت جھونک دینے والے نریندر مودی کے لیے یہ بات بڑی تشویش ناک ثابت ہو سکتی ہے ۔ اس لئے ان کے مشیروں نے اسکا توڑ نکالنے کے لئے چوکیدار کے لفظ کو ہی بھنانا شروع کیا اور شوشل میڈیاء میں ’ میں بھی چوکیدار ہوں‘ کے عنوان سے ایک مہم چھیڑی ہے ہمیں اس مہم پر کافی حیرانی ہوئی۔کیوں کے بی جے پی نے ہمیشہ اپنادفاع کرنے کے بجائے راہل گاندھی پر اور کانگریس پارٹی پر حملہ کیا ۔ یہ پہیلا مو قع انہوں یہ خود احساس دلایا کہ وہ راہل گاندھی کی ’ چوکیدار چور ء’ والی مہم سے سچ مچ بہت پریشان ہیں ۔ میں بھی چوکیدار ہوں کی مہم سے مودی کو فائدہ ہوگا یا نقصان یہ انتخابات کے نتائج ہی بتائیں گے ۔لیکن اس اقدام سے اتنا تو ہو ہی گیا کہ یہ لفظ موضوع گفتگو بن گیا ۔وہ نعرہ جو اب تک صرف راہل کی ریلیوں تک محدود تھا اب پوری طرح رامیڈیاء اور شوشل میڈیاء پر بھی عام ہوگیا ہے ۔ہمیں تو نہیں لگتا کہ مودی نے چوکیدار والی مہم چھیڑ کر کوئی عقل مندی کی ہے ۔ اب تو یہ حالت ہو گئی کے کہا جانے لگا اس بار وزیر اعظم منتخب کیجیئے چوکیدار تو نیپال سے بھی منگوایا جا سکتا ہے ۔
یہاں ایک لطیفہ بیان کرتا چلوں ، ہمارے چچا سا غر خیامی ایک بار کسی مشاعرے سے دیر رات لوٹ کر ائے تو سونے کی لاکھ کوشش کر رہے تھے مگر جب بھی بانکی انکھ لگتی تھی تو چوکیدار آکر لاٹھی پٹخ پٹخ کر کہتا تھا جاگتے رہو ، ساغر چچا کو غصہ آگیا ۔ باہر آکر اس سے لاٹھی چھین کر بولے ابے آگر ہمکو جاگتے رہنا ہے تو تم کو کیوں رکھا ہے؟ اس لئے نریندر مودی جی کی نئی مہم پر لوگ یہ تو پوچھیں گے ہی کہ آگر ہم بھی چوکیدارہیں اور آپ بھی چوکیدار ہیں تو اپکی کیاضرورت ہے؟ ویسے بھی ہندوستان میں چوکیدار کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہے کہ کوئی بھی پڑھا لکھا بچہ بڑا ہو کر چوکیدار بننے کا خواب دیکھے۔اپنی اولاد کی تعلیم پر لاکھوں روپیہ خرچ کرنے والے لوگ بھی کبھی یہ نہیں چاھیں گے کہ انکا بچہ چوکیداری کو اپنا کیرئیر بنائے ۔ اصل میں مودی کے مشیروں سے اس بار سخت غلطی ہوئی ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم کو چوکیدار کے منصب پر لانے کی مہم چلائی ہے ۔ پچھلے الیکشن میں اس مہم سے بالکل الٹی مہم چلائی گئی تھی ۔آپ کو یاد ہوگا کہ اس وقت چائے والے کو وزیر اعظم بننے کو بڑھاچڑھا کر پیش کیاگیا تھا ،جس کی وجہ سے عام لوگوں میں ایک ہمدردی کا جذبہ بیدار ہو گیا تھا ۔حالانکہ مودی کے چای بیچنے کا قصہ لوک سبھا الیکشن سے پہیلے کسی کو معلوم تک نہیں تھا ، وہ تیرا سال تک گجرات کے وزیر اعلی رہے ،مگر انہوں نے کبھی کسی گجراتی سے فخریہ انداز میںیہ نہیں کہا کہ وہ چای بیچ کر وزیر اعلی کی کرسی تک پہونچے ہیں ، مگر لوک سبھا انتخابات کے عین پہیلے انکو یاد آگیا کہ وہ چای بیچا کرتے تھے تو اس چیز کو انہوں نے خوب بھنایا ۔ اسی وجہ سے چای پر چرچہ شروع کی لیکن اس بار ایک اونچے عہدے پر بیٹھے انسان کو چوکیدار کے عہدے پر لا کر وہ ویسا ہی فائدہ اٹھا پائیں گے یا نہیں ، وہ وقت ہی بتائے گا ۔
(سیاست نیوز)