چھوٹے چھو ٹے سے مفادات لئے پھرتے ہیں….ہاتھ میں کاسئہ خیر ات لئے پھرتے ہیں

   

یوپی میں سیکولر ووٹوںکی تقسیم کا خطرہ !

محمد جسیم الدین نظامی
کہتے ہیں کہ ،طوائف اور کرسی کبھی ایک کی ہو کر نہیں رہتی ،یہ کب دھوکہ دے جائیں، کوئی نہیں جانتا…یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا احساس فی الحال دوسری جماعتوںسے زیادہ حکمراں جماعت کو ہے… چونکہ اس وقت اقتدار کی کرسی پہ وہی براجمان ہے،تاہم جیسے جیسے عام انتخابات کے وقت قریب آنے لگے ہیں،فرعونِ وقت کو احساس ہوچلا ہے ، ’’کرایہ دارہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے‘‘ …یہی وجہہ ہے کہ 2019میں اقتدار کی کرسی چھِن جانے کا خوف اس قدر ستانے لگاہے کہ ،وہ رائے دہندوں کولبھانے تابڑتوڑ نئی نئی اسکیمیں اورپروجیکٹس متعارف کرانے لگی ہیں..مگر ہندوستان میں سب سے زیادہ لوک سبھا نششتیں رکھنے والی ریاست، اتر پردیش میں اکھلیش یادو اورمایا وتی کے انتخابی اتحاد سے حکمراں طبقے کی نہ صرف پیروں تلے زمین کھِسک گئی ہے بلکہ تشریف کے نیچے سے کرسی بھی کھِسک جانے کا خوف واضح طور پرمحسوس کیا جانے لگاہے… 1993 میںجب بی جے پی’’ رام رتھ‘‘ پر سوار ہوکر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی تو اس وقت سیاسی بصیرت کا مظاہر کرتے ہوئے ملائم سنگھ یادو اور کانشی رام نے انتخابی اتحاد قائم کرتے ہوئے بی جے پی کاراستہ روک دیا تھا … ایس پی-بی ایس پی اتحاد کے ساتھ شاید تاریخ اپنے آپکو ایک بار پھر دہرانے کی کوشش میں ہے…تاہم سوال یہ ہے کہ 1993 کی طرح کیا اس بار بھی یہ اتحاد اپنی اہمیت کے ساتھ حقیقی شکل اختیار کرپائیگا؟ یہ سوال اسلئے بھی اہم ہے کہ موجود ہ وقت میں ملک کے حالات اب 90 کی دہائی سے مکمل طورپر مختلف ہے ، اور اب مرکز کے ساتھ ساتھ یوپی میں بھی بی جے پی ہی برسر اقتدارہے …اوردوسری اہم بات یہ ہے کہ ایس پی -بی ایس پی اتحاد سے کانگریس جیسی قومی پارٹی کو دوررکھا گیا ہے…نتیجتاً کانگریس نے بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے لوک سبھاکی تمام80 نشستوں پرمقابلے کا اعلان کردیا ہے اور برسوںسے منتظر کانگریسی کارکنو ں اور پارٹی میںنئی جان ڈالنے پرینکا گاندھی کو بھی سیاست میں اتار دیا گیا ہے . ..اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ2014 میں کانگریس نے یوپی میں کوئی خاص مظاہرہ نہیں کیا اوراسے محض2سیٹوںپر ہی اکتفا کرناپڑا تھا، تاہم اس سے قبل 2004کے لوک سبھا چناو میں اس نے یوپی میں لوک سبھاکی9سیٹو ںپر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ2009 میں، کانگریس نے ہر ایک کو حیران کرتے ہوئے21 نشستوں پر کامیابی کا جھنڈا لہرایا تھا۔

ملک کی تین ریاستوں چھتیس گڑھ ،راجستھان اورمدھیہ پردیش میں زبردست واپسی کے بعد ظاہر ہے کانگریس اس بار 2009 کی کارکردگی کو دہرانے کی کوشش کریگی جسکے امکانات بھی ہیں…مودی لہرکا پروپگنڈہ ،یوگی کی لگاتار زہرافشانی اورگودی میڈیا کی حمایت کے باوجو ہندی بولنے والی تین ریاستوں میں کانگریس کی کامیابی نے جہاں بی جے پی کے غرور کو توڑا ہے،وہیں انتینوں ہندی ریاستوںمیںتبدیلی کی لہر سے واضح ہے کہ لوگوں نے راہول گاندھی کوقبول کرنا شروع کردیا ہے… اسلئے سیاسی تجزیہ نگاروںکاخیال ہے کہ یوپی کے بعض حلقوں میںمسلم ووٹ سمیت بی جے پی اور ایس پی-بی ایس پی سے ناراض دوسری ذاتوں کے ووٹ کانگریس کی جھولی میں جاسکتے ہیں اور ایس سی، ایس ٹی ایکٹ کے ساتھ ناراض لوگ کانگریس کے ساتھ آسکتے ہیں … مسلمانوں میں کوئی موثر ’’پریشر گروپ ‘‘ بھی نہیں کہ مسلم ووٹوںکی ممکنہ تقسیم کو روک سکے…اب تک تو یہی دیکھا گیا ہے کہ عین الیکشن کے وقت اعلان کیا جاتا ہے کہ، مسلمان فلاں پارٹی کوووٹ دیں اورفلاں پارٹی کی حمایت کریں..اور پھر عام مسلم ووٹرس تذبذب کا شکار ہوکر اپنے ووٹ کو بے اثر کرلیتے ہیں … کانگریس جیسی قومی پارٹی کی یوپی میں کارکردگی کا موازنہ اگر ما یاو تی کی بااثر علاقائی پارٹی بی ایس پی سے کی جائے تو 2014میں لوک سبھا کی سیٹ پر بی ایس پی کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوا تھا… جبکہ 2017 کے اسمبلی الیکشن میں بی ایس پی کو 19 سیٹوں پر ہی اکتفاء کرنا پڑا تھا…دراصل حالیہ عرصے میںمایاوتی غیرمعلنہ طورپرخود کو ’’تیسرے محاذ ‘‘کی قائد کے طورپرپیش کرتی نظرآر ہی ہیں … ملک کی مختلف ریاستوںمیں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے کانگریس سے ممکنہ حد تک دوری بنائے رکھنے کو ترجیح دی ہے، چھتیس گڑ ھ ،مدھیہ پردیش اورراجستھان میں انکے رویّے اوربیانات سے اس کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے …تاہمقارئین کو یاد ہوگا ،سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں جب مودی لہر میں اپوزیشن کو اپنی اوقات کا اندازہ ہوا تو بہار میں برسوںکے حریف لالو یاد و اور نتیش کمار ’’مہا گٹھ بندھن‘‘ قائم کرنے پرمجبور ہوئے اوربی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار کیا..اس سے حوصلہ پاکر2017 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے یہی فارمولہ اختیار کیا تھا مگر مایا وتی کی تنک مزاجی اور ضدی پن کے رویہ نے اس اتحاد کو مہاگٹھ بندھن بننے سے روک دیا … سیاسی بصیرت سے عاری بہن جی کے تنہا انتخابات لڑنے کے فیصلے نے سیکولرووٹوںکو بری طرح سے منقسم کردیا…نتیجتاً صرف 39.7فیصد ووٹ حاصل کرنے والی زعفرانی پارٹی نے، 60.3فیصد سیکولر ووٹوں کو حاصل کرنے والی کانگریس ،ایس پی ،بی ایس پی اوردیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیوکو ٹھینگا بتاکر اقتدار حا صل کرلیا… مذکورہ الیکشن میں جہاں کانگریس ایس پی اتحادکو منقسم ووٹوںسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا وہیں مایاوتی کی بی ایس پی کو تنہا انتخابی مقابلے کے جنون نے ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا… یہ کس قدر حیرت انگیز پہلوہے کہ، 2017پوپی اسمبلی انتخابات میں 403 نشستوںمیں سے 312نشستوں پر کامیابی درج کرانے والی بی جے پی کو محض 39.7 فیصد ہی ووٹ حاصل ہوئے تھے،جبکہ اکھلیش یادو کو صرف 47 نشستیں ہی ملی تھی اورما یا وتی کے حصے میں 19 نشستیں آسکیں…لیکن دنوں پارٹیوںکے ووٹ شئیر کو ملادیا جائے تویہ بی جے پی پر بھاری پڑ جاتاہے ..

. بی ایس پی کو اگرچہ 19 نشستوں پرہی کامیابی ملی لیکن مجموعی طور پر بی ایس پی کو 22.2 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے ،جبکہ اکھلیش کی ایس پی نے جملہ 21.8 فیصد ووٹ حاصل کی تھی… اس طرح اگر بی ایس پی اورایس پی کے ووٹ فیصد کو ملاکردیکھیں تو یہ جملہ 44 فیصد ہوتا ہے جو بی جے پی کے محصلہ ووٹوں سے 4.3 فیصدی زیاد ہ ہے، اور اگراس میں کانگریس کے محصلہ ووٹ 6.3 فیصد ملا لئے جائیں تو یہ 50.3 سے زائد ہوجاتاہے … کہنے کا مطلب یہ ہے کہ باالفرض ای وی ایم میں گڑبڑی کے اندیشوںکو خارج کردیا جائے تو بھی یہ صاف ہے کہ سنگھ پریوارکی شب وروزمحنت اورکوششوںکے باوجود ابھی بھی یہاں سیکولرووٹوںکا تناسب زیادہ ہے…تصویر صاف ہے کہ اگر ایس پی کانگریس اوربی ایس پی متحدہ طورپر انتخابات کا سامنا کرتی تو آج یہ جماعتیں اپنی بقاء کی جنگ نہ لڑرہی ہوتیں …اوربی جے پی کو یوپی جیسی بڑی ریاست سے لوک سبھا اورراجیہ سبھا سے اتنی بڑی تعداد میں ارکان کا کھیپ نہیں مل پاتا..‘‘ تیزرفتاری سے بدلتے ہوئے سیاسی ماحول اوراک منظم ومستحکم تنظیم کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت کے سامنے جب کوئی سیاسی دور اندیشی سے محروم جماعت خودغرضی اورانانیت کے بوسیدہ ٹیلے پربیٹھ کراقتدار کا خواب دیکھنے لگے تو اسے اس و قت تک ہوش نہیں آتا جب تک کوئی اسے پیچھے سے لات مارکر منہ کے بل گرانہ دے…سیاسی تجزیہ کار و ں کا کہناہے کہ 90 کے عشرے میں بی جے پی برہمنوںاور بنیا کی پارٹی تھی اورکلیان سنگھ کے سبب لودھا اور اوبی سی کے کچھ ووٹرس بی جے پی کے ساتھ تھے ،تاہم اب اس جماعت نے اوبی سی اوردلت رائے دہندوںمیںبھی کسی حدتک جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے… ایسے میں ظاہر ہے، اگرایس پی ،بی ایس پی کو پھر سے اپنا وقار اور اقتدار حاصل کرناہے توانکے پاس اتحاد کرنے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں تھا..تاہم اس اتحاد میں مناسب سیٹو ںکے ساتھ اگر کانگریس کو بھی شامل کرلیا جاتا تو سیکولر ووٹوںکی تقسیم کے خدشات کو دور کیا جاسکتاتھا… چونکہ ایس پی بی ایس پی کے ساتھ اگر کانگریس بھی شامل ہوتی،تواس اتحاد سے سب سے بڑا جو فائدہ ہوتا وہ یہ کہ یوپی کا مسلم ووٹ جو تقریباً19% سمجھا جاتاہے ،پوری طرح سے اتحاد کے حق میںجاسکتا تھا،جبکہ اب ایسی توقع نہیں کی جاسکتی…آپکو یاد ہوگا کہ2017 کے اسمبلی انتخابات کے دوران مسلمانوںکی اکثریت ایس پی ،کانگریس اتحاد اور بی ایس پی کے درمیان تذبذب کا شکارہوگئی تھی..اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت بلاشبہ بی جے پی کے خلاف تھی ،مگر سیکولر کہلانے والی پارٹیاںمسلم اکثریتی علاقوں میں کسی ایک پارٹی کے حق میں ہرگز متفق نہیں تھیں… نتیجہ یہ ہوا کہ زیادہ تر حلقو ں میںمسلم ووٹ بکھرنے کے سبب بی جے پی مسلم اکثریتی سیٹوںپر با آسانی کامیاب ہوگئی…تاہم اب جبکہ1995 میں گیسٹ ہاوز حادثہ کے سبب دونوں جماعتوں کے درمیان پیداہونے والی خلاء کے بعد پہلی بار ریاست کی دوبڑی جماعتوں نے لوک سبھا انتخابات کیلئے اتحاد کا اعلان کیا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ،انہیں اب احساس ہوچکا ہے انتخابی جنگ میں جب تک وہ متحد ہوکر پنجہ آزمائی نہیں کرینگے ،فریق مخالف کو چِت نہیں کرسکتے…ظاہر ہے ،فرقہ پرست نظریات کو شکست دینے کیلئے معمولی مفادات اور چھوٹے چھوٹے مقاصد کو نظر انداز کرنا ہی ہوگاورنہ نتیجہ 2014جیسا ہوجائگا کیونکہ…..بقول کسی شاعر
چھوٹے چھوٹے سے مفادات لئے پھر تے ہیں
در بدر خود کو جو دن رات لئے پھرتے ہیں
اپنی مجروح اناؤں کو دلاسہ دے کر
ہاتھ میں کاسئہ خیرات لئے پھرتے ہیں
mjnezami@gmail.com