ملک میں کسی بھی مسئلہ کیلئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف بیان بازی کرنے کی روایت عام ہوتی جا رہی ہے ۔ کئی گوشوں سے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے بیانات دئے جا رہے ہیں۔ انہیں دھمکایا جا رہا ہے ۔ ان کے خلاف ایسی زبان اور لب و لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے جس کی مہذب سماج میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے کسی کو تنقید کا نشانہ تو بنایا جاسکتا ہے لیکن جس طرح کے اشتعال انگیز لب و لہجہ کے استعمال کو عام کیا جا رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک کہا جاسکتا ہے ۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ کئی گوشے ایسے ہیں جو اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے مسلمانوں کے خلاف اس طرح کا لب و لہجہ اور زبان استعمال کر رہے ہیں جو عوامی زندگی میں استعمال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ کہیں مسلمانوں کو ملک چھوڑ دینے کی دھمکی دی جا رہی ہے تو کہیں کسی ریاست کا تخلیہ کردینے کو کہا جا رہا ہے ۔ کہیں ان کے لباس و رہن سہن کو نشانہ بنایا جا رہاہے تو کہیں ان کی غذائی عادات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ زیادہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ دستوری اور ذمہ داری عہدوں پر فائز افراد بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتے ۔ اس معاملے میں چیف منسٹر آسام ہیمنتا بسوا سرما سب سے آگے رہنا چاہتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں انہوں نے ہر معاملہ میں اپنی مسلم دشمنی کا ثبوت دیا ہے ۔ ہر معاملے کو مسلمانوں سے جوڑ کر وہ اپنی حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج سارا ملک اشیائے ضروریہ اور خاص طور پر ترکاریوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کی وجہ سے پریشان ہے ۔ عام استعمال کی اشیا بھی عوام کی پہونچ سے باہر ہوتی چلی گئی ہیں۔ حکومتیں اس صورتحال پر کنٹرول کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہیں۔ اب اپنی اسی ناکامی کو چھپانے کیلئے چیف منسٹر آسام نے قیمتوں میں اضافہ کیلئے مسلم تاجرین کو ذمہ دار قرار دیا ہے اور کہا کہ ’ میاں ‘ ( مسلم ) ترکاری فروشوں نے قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے ۔و ہ ترکاری کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہوئے من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ یہ انتہائی بچکانہ اور نامناسب بیان کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ سارے ملک میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور صرف مسلمان نہیں ہیں جو ترکاری فروش ہیں۔
ہیمنتا بسوا سرما کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ مسلم دشمنی میں سب سے آگے رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے آسام کے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ انہوں نے ریاست میں مدرسوں کو رسواء کرنے کی کوشش کی ۔ مدرسوں کو بند کردینے کے احکام جاری کئے ۔ وہ جس طرح کے اقدامات کر رہے ہیں ان کی وجہ سے اکثر و بیشتر تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اب انہوں نے ترکاری قیمتوں میں اضافہ کی جو وجہ اپنے طور پر پیش کی ہے اس کی وجہ سے بھی ایک تنازعہ پیدا ہوگیا ہے ۔ در اصل قیمتوں پر کنٹرول کرنے کی ذمہ داری ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی ہوتی ہے ۔ مارکٹ کے حالات کی وجہ سے اتار چڑھاؤ بھی ایک عام بات ہے لیکن حکومتوں کو مارکٹ کی صورتحال کے مطابق اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ مرکزی حکومت ہو یا پھر ریاستی حکومتیں ہوں اس صورتحال پر قابو پانے میں بری طرح سے ناکام ہوگئی ہیں۔ عوام کو مہنگائی کی مار سہنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ عوام کو کسی طرح کی کوئی راحت نہیں پہونچائی جا رہی ہے ۔ نت نئے بہانے کرتے ہوئے عوام پر بوجھ عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنے اور عوام کو راحت دینے کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے حکومتیں اس طرح کے عذر اور بہانے پیش کر رہی ہیں جو انتہائی نامناسب ‘ افسوسناک اور بچکانہ ہی کہے جاسکتے ہیں۔ ملک میں کوئی تجارت ایسی نہیں ہے جس پر محض کسی ایک طبقہ کی اجارہ داری ہو ۔ یقینی طور پر کچھ بڑے کاروبار ایسے ہیں جن پر بڑے کارپوریٹ اداروں کی اجارہ داری ہے لیکن ترکاری فروشی اس میں شامل نہیں ہے ۔
ہیمنتا بسوا سرما کو اپنی روش کا از سر نوجائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ وہ مسلسل اشتعال انگیز اور متنازعہ بیانات دیتے رہتے ہیں۔ بی جے پی کی قومی قیادت کی جانب سے بھی انہیں اس طرح کی بیان بازی پر روکا نہیں جاتا یہی وجہ ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کو روکنے کیلئے نہ مرکزی حکومت کوئی اقدام کرتی ہے اور نہ ہی بی جے پی کی جانب سے کوئی کارروائی ہوتی ہے ۔ مرکزی حکومت ہو یا بی جے پی قیادت ہو انہیں بھی سمجھنا چاہئے کہ ایک چیف منسٹر کو اس طرح کی بیان بازی ذیب نہیں دیتی ۔ ہندوستان جیسے ملک میں اس طرح کی بیان بازیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ چیف منسٹر آسام کو سمجھنا چاہئے کہ وہ محض ایک بی جے پی لیڈر نہیں ہیں بلکہ ایک ریاست کے منتخب چیف منسٹر ہیں اور انہیں اس طرح کی بچکانہ اور نامناسب بیان بازیوں سے گریز کرنا چاہئے ۔
تلنگانہ ‘ کانگریس کی حکمت عملی
گذشتہ دو انتخابات میں عوامی تائید حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد آئندہ اسمبلی انتخابات کیلئے تلنگانہ میں کانگریس منظم انداز میں تیاریاں کر رہی ہے ۔ سماج کے ہر طبقہ پر پارٹی نے توجہ مرکوز کی ہوئی ہے ۔ گذشتہ دنوں سابق صدر راہول گاندھی نے کھمم میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کچھ طبقات کو راغب کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اب پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی تلنگانہ کا دورہ کرنے والی ہیں۔ وہ کرناٹک انتخابات کی مہم ختم کرتے ہی حیدرآباد کا دورہ کرچکی ہیں۔ اس وقت بھی انہوں نے سماج کے اہم طبقات کیلئے کچھ وعدے کئے تھے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ محبوب نگر میں 20 جولائی کو جلسہ عام میں شرکت کرتے ہوئے خواتین ڈیکلریشن جاری کریں گی ۔ ریاست میں خواتین سے تعلق رکھنے والے مسائل پر کئی وعدے کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ گیس سلینڈر 500 روپئے میں سربراہ کرنے کا وعدہ بھی پرینکا گاندھی کرسکتی ہیں۔ یہ وعدہ ریاست کی خاتون ووٹر کیلئے اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے راست گھروں کے بجٹ کا تعلق ہے ۔ اس کے علاوہ کئی اور وعدے ریاست کے ووٹرس کیلئے مختلف مراحل میں کئے جانے کا امکان ہے ۔ جس طرح کرناٹک میں انتخابی وعدوں کی تکمیل کی سمت پیشرفت کی گئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کانگریس کے حوصلے بلند ہیں اور تلنگانہ میں بھی وہی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ۔ کانگریس حالانکہ اپنے طور پر منظم انداز میں تیاری کر رہی ہے اور سماج کے ہر طبقہ کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پارٹی کو امید ہے کہ وہ اس طرح سے تلنگانہ میں اقتدار پر واپسی کرسکتی ہے ۔ تاہم اس کی یہ کوششیں کس حد تک عوام کی تائید حاصل کرپائیں گی یہ انتخابی نتائج ہی سے پتہ چلے گا ۔