چیف منسٹر آسام کا جھوٹ اور مسلمانوں کی آبادی

   

رام پنیانی
چیف منسٹر آسام ہیمنت بسوا شرما نے 11 جون کو یہ کہتے ہوئے ایک تنازعہ چھیڑ دیا ہے کہ مسلمانوں کو ریاست آسام میں غربت اور دیگر سماجی مسائل سے مقابلے اور ان کے خاتمے کیلئے ایک خاندانی منصوبہ بندی کو اپنانا چاہئے۔ ویسے بھی مسلم کمیونٹی کے بارے میں یہ دقیانوسی خیال پایا جاتا ہے کہ مسلمان، اپنی آبادی تیزی سے بڑھاتے ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے، تاہم ہندوستان میں یہی پروپگنڈا کیا جاتا ہے کہ مسلمان اپنی آبادی بڑھاتے ہیں، ہندوستان میں عددی لحاظ سے اکثریت کا موقف حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ہندوستان کو ایک اسلامی مملکت بنانے کی خفیہ خواہش کے حامل ہیں۔

وشوا ہندو پریشد کی سادھوی پراچی اور بی جے پی رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج جیسے لوگوں نے ہندوؤں بالخصوص ہندو خواتین کو مسلمانوں کے اس مبینہ عزم و ارادہ کا جواب دینے کیلئے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ دراصل مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ کی جو خبریں منظر عام پر لائی جاتی ہیں، وہ غلط معلومات پر مبنی ہوتی ہیں اور اس طرح کی رپورٹس کے ذریعہ تمام مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہے یعنی مسلم کمیونٹی کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کیلئے اس قسم کی گمراہ کن خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہندوؤں کے کئی طبقات اور قبائیلیوں میں آبادی کی شرح مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ یہ فراموش کرنا بھی آسان ہے کہ ہندوستان نے چند دہے قبل دو بچوں کے قواعد کی حوصلہ افزائی کی تھی اور یہ حوصلہ افزائی کسی مخصوص گروپوں یا طبقات کی آبادی پر کنٹرول کیلئے نہیں کی گئی تھی بلکہ ہندوستانی خاندانوں کے حجم میں کمی کیلئے کی گئی تھی۔ یہ اس لئے کیا گیا کیونکہ سماجی و اقتصادی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کچھ دہے قبل دو بچوں کے قواعد کی جو حوصلہ افزائی کی گئی تھی وہ مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماجی و اقتصادی صورتحال کی بنیاد پر کی گئی تھی اور اسی کے تحت تمام طبقات کیلئے خاندانی حجم کے تعین کی کوششیں بھی کی گئی تھیں۔ آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کی آبادی 1951ء میں 9.8% تھی اور 2011ء میں جو مردم شماری کی گئی، اس کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 14.2% بتائی گئی ہے۔ اسی طرح قبائیلیوں کی آبادی 1951ء میں 5.6% ریکارڈ کی گئی اور 2011ء کی مردم شماری میں قبائیلیوں کی آبادی 8.6% بتائی گئی۔ ان طبقات میں جو چیز مشترکہ طور پر دیکھی گئی، وہ غربت اور ناخواندگی ہے۔ یہ ایسے عناصر ہیں جس نے افرادی سطح پر اور مختلف گروپوں کی سطح پر سماجی، تعلیمی اور اقتصادی موقف میں تبدیلیاں لائی ہیں۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 2001ء میں 13.4% بتائی گئی تھی جو بڑھ کر 2011ء کی مردم شماری میں 14.2% ہوئی۔ اس طرح 10 برسوں میں مسلمانوں کی آبادی میں جو اضافہ ہوا ہے، اس کی شرح 2011ء میں 20 سال کے دوران سب سے کم تھی۔ 1991ء میں یہ 32.8% سے گر کر 24.6% ہوگئی اور اس میں ہندوؤں کی آبادی میں متوازی گراوٹ آئی ہے۔ 1991ء میں ہندوؤں کی آبادی کی شرح 22.7% تھی جو 2011ء میں 16.7% تک آگئی۔ یعنی یہ 20 برسوں کے دوران ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی میں گرتی بڑھتی شرح ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ 10 برسوں یا 20 برسوں کے دوران مختلف طبقات کی آبادی کی شرح میں جو اضافہ ہوا ہے وہ گرتا گیا۔

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان بہت زیادہ بچے رکھتے ہیں یا ان کے بڑے بڑے خاندان ہوتے ہیں اور اس کی وجہ ایک سے زائد بیویوں کا رکھنا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ سمجھنا کہ جتنی زیادہ بیویاں ہوں گی، اتنے زیادہ بچے ہوں گے، بالکل غلط ہے کیونکہ اس استدلال میں جنس کی شرح یا تناسب پر غور نہیں کیا گیا۔ یہ صرف اور صرف ایک پروپگنڈا ہے اور معاشرے میں مسلمانوں کے بارے میں غلط تصورات پیدا کرنا ہے۔ ہندوستان میں جہاں تک ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا سوال ہے، یہ رجحان ہندوؤں اور مسلمانوں میں تقریباً یکساں پایا جاتا ہے۔

ہندوستان میں خواتین کے موقف سے متعلق کمیٹی نے 1974ء میں یہ پایا کہ ایک سے زائد بیویاں صرف مسلمان نہیں رکھتے بلکہ مسلمانوں سے کہیں زیادہ دوسرے طبقات میں ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ قبائیلیوں میں ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی شرح 15.2% ، بدھسٹوں میں 9.7% ، جین مذہب کے ماننے والوں میں 6.7% اور ہندوؤں میں 5.8% پائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں میں ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا رجحان بہت کم یعنی 5.7% پایا جاتا ہے۔ ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا رواج کم جنسی تناسب کے باوجود پایا جاتا ہے (اوسطاً 943 اور مسلمانوں میں 951) ہندوستان میں کم جنسی تناسب ایک سے زائد بیویاں رکھنے کے امکانات کو محدود کرتا ہے۔ اگر حقائق کا سہارا لیتے ہوئے بات کی جائے تو شرح بارآوری (فی خاتون بچوں کی تعداد) ہمیں آبادی میں ہونے والی تبدیلیوں کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد کرے گی۔ مذہبی گروپوں میں فی ماںبچوں کی تازہ تعداد ایک دہے سے زائد قدیم ہے۔ یہ اعداد و شمار قومی خاندانی صحت سروے (2005-06ء این ایف ایچ ایس۔3) سے حاصل کی گئی۔ اس ڈیٹا کے مطابق ہندو اور مسلمانوں میں بارآوری کی شرح یکساں طور پر گر رہی ہے۔ سال 2004-05ء میں ہندوستانی خواتین میں بارآوری کی شرح 3 تھی۔ ہندو خواتین میں یہ شرح 2.8% جبکہ مسلم خواتین میں 3.4% تھی۔
2014ء میں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے ذریعہ یہ پایا گیا کہ قومی بارآوری شرح گر کر 2.2% ہوگئی جو بارآوری کی شرح 2% کے قریب ہے۔ ہندو خواتین میں یہ شرح 2.13% (0.67% کی گراوٹ) اور مسلمانوں میں یہ شرح 2.62% (0.78% کی گراوٹ) ہے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں میں شرح بارآوری ہندوؤں کی بہ نسبت پہلے تیزی سے گری ہے۔ کیرلا کی مسلم خواتین میں بارآوری کی شرح 2.3%، کرناٹک کی مسلم خواتین میں 2.2% اور آندھرا کی مسلم خواتین میں 1.8% پائی گئی۔ تعلیمی معیارات خاص طور پر خواتین کی تعلیم کا چھوٹے خاندانوں میں اہم ترین کردار رہا ہے۔ ان جنوبی ریاستوں میں ہندو خواتین کی شرح بارآوری بہار میں رہنے والی ہندو خواتین کی بہ نسبت بہت کم رہی۔ بہار2.9% ، راجستھان 2.8% اور اُترپردیش 2.6% رہی۔ 2011ء کی مردم شماری کے حقیقی اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 17.2 کروڑ اور ہندوؤں کی آبادی 96.6 کروڑ (79% تھی) ۔ اس ڈیٹا کو دیکھتے ہوئے مختلف جائزوں میں جو پیش قیاسی کی گئی، ان کے مطابق 2050ء تک ہندوستان میں ہندوؤں کی آبادی 130 کروڑ اور مسلمانوں کی آبادی 31 کروڑ ہوسکتی ہے۔ ایسے میں یہ کہا جانا کہ ہندو آبادی میں کمی آرہی ہے اور اقلیتوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی میں ہندوؤں کا حصہ 79.8% اور مسلمانوں کا حصہ 14.2% ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ خاندانوں کو محدود کرنے کے پروگرامس زیادہ تر مسلم کمیونٹی نے اپنائے ہیں جبکہ اس بارے میں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے گمراہ کن اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان
“The Population Myth: Islam, Family Planning & Politics in India”
میں اس مسئلہ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ چیف منسٹر آسام نے جو بیان دیا ہے ، وہ انتہائی منفی بیان ہے جس سے سماجی غلط فہمیوں، تعصب و جانبداری کو بڑھاوا ملے گا۔ بدقسمتی سے ہمارا سوشیل میڈیا بھی مسلم آبادی کے بارے میں غلط و گمراہ کن باتیں پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس سے سماج میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور سماج بٹ کر رہ جاتا ہے۔ ان حالات میں حقائق عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان میں شعور بیدار کرنا چاہئے۔