ڈاکٹر ماجد الدین قاضی کچھ باتیں کچھ یادیں

   

محمد ریاض احمد
سعودی عرب کے مرحوم شاہ فہد بن عبدالعزیز کے شخصی معالج ماہر امراض قلب ڈاکٹر ماجد قاضی کا جمعرات کو جدہ میں انتقال ہوا، ان کی عمر 81 سال تھی۔
ڈاکٹر قاضی کے پسماندگان میں بیوہ کپرول اُئن قاضی ، دو فرزندان شمس اور کمال قاضی، دو دختران انیس اور صامیہ شامل ہیں۔جس وقت ڈاکٹر قاضی کا انتقال ہوا ان کے دونوں بیٹے اور اہلیہ موجود تھیں۔ ان کے بھانجہ واجد علی خان اور دیگر قریبی رشتہ دار بھی اس وقت موجود تھے۔ واجد علی خاں جدہ میں مقیم ہیں اور وہ ڈاکٹر ماجد القاضی کی چار بہنوں میں سے ایک رضیہ قاضی کے فرزند ہیں۔ اپنے ماموں جان کے انتقال پُرملال پر غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماجد ماموں کے انتقال پُرملال سے ایک دور یا باب کا خاتمہ ہوگیا۔
ڈاکٹر قاضی ہندوستانی نژاد سعودی تھے جن کا تعلق ہندوستان کے تاریخی مقام اورنگ آباد ( مہاراشٹرا ) سے تھا۔ ان کے والد قاضی حمید الدین کا شمار اپنے دور کے ممتاز وکلاء میں ہوتا تھا اور وہ اس وقت کے ایک ممتاز مسلم رہنما تھے۔
ڈاکٹر قاضی کے بھائی قاضی سلیم ایک کامیاب اردو شاعر اور سیاستداں تھے، اندرا گاندھی کے دور وزارت عظمیٰ میں قاضی سلیم نے پارلیمنٹ میں اورنگ آباد کی نمائندگی کی تھی۔اس میں کوئی شبہ نہیںکہ ڈاکٹر قاضی سعودی عرب کے ہندوستانی نژاد باشندوں میں سرِفہرست تھے اور انھیں مملکت سعودی عرب میں غیر معمولی مقام حاصل تھا۔ چونکہ وہ شاہی خاندان کے خصوصی کارڈیالوجسٹ کے عہدہ پر فائز تھے اسی لئے بھی انھیں سعودی شہریت عطا کی گئی تھی۔ڈاکٹر قاضی کو اپنی دو دختران سے کافی محبت و اُنسیت تھی وہ دونوں کو بے پناہ چاہتے تھے جب بھی اُن بیٹیوں کا ذکر کرتے بڑے پیار سے کرتے۔ انیس اور صامیہ بھی اپنے بابا سے اسی طرح پیار کرتیں۔’عرب نیوز‘ کو 2006 میں دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر قاضی نے اپنے بچپن اور ابتدائی تعلیم کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا ۔وہ انٹرویو سراج وہاب نے لیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا ’’ میری تعلیم میرے پیارے شہر حیدرآباد میں ہوئی ‘‘۔1956 میں وہ طب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے حیدرآباد واپس آئے اور عثمانیہ میڈیکل کالج سے ڈگری حاصل کی۔ گریجویشن کے فوری بعد انہوں نے گاندھی میڈیکل کالج میں ایک ٹیوٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ یہ وہی کالج تھا جہاں انھوں نے اپنی میڈیسن کی تعلیم کے ابتدائی چھ ماہ گذارے تھے اور جہاں ان کا شمار کالج کے ٹاپ 40 طلباء میں ہوتا تھا۔ اس بارے میں ’عرب نیوز‘ کو دیئے گئے انٹرویو میںانھوں نے بتایا تھا ’’ ہم سب اپنے آپ کو اس ادارہ کے40 ستون کہا کرتے تھے ، بعد میں میرا تبادلہ عثمانیہ میڈیکل کالج کو کردیا گیا جہاں میں نے اپنی نوجوانی کے اہم ایام گذارے، ہم بڑے دھوم دھام سے کالج کی سالانہ تقریب مناتے اور یہ تقاریب تین یوم تک جاری رہتی۔‘‘
ڈاکٹر قاضی کو حکومت ہند نے سال 2006 میں پراواسی بھارتیہ سمان سے نوازا اور انہوں نے یہ اعزاز اُس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے ہاتھوں حاصل کیا۔ وہ علاقہ خلیج سے یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی شخصیت تھے۔ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے ہاتھوں ایوارڈ حاصل کرنے اور ان سے ملاقات پر ڈاکٹر قاضی بہت خوش تھے۔ اُس بارے میں انھوں نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا تھا ’’ وہ کیا خوشگوار اور پُرمسرت گھڑی تھی جب مجھے ہندوستانی صدر کو دیکھنے ، ان کے خیالات کی سماعت کرنے اور مصافحہ کرنے کا موقع ملا ۔ اُسے میں اپنے اور اپنے خاندان کیلئے ایک اعزاز تصور کرتا ہوں۔ میں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی دانشمندی، علم، انداز گفتگو، عاجزی و انکساری سے بہت متاثر ہوا ہوں ۔‘‘ڈاکٹر قاضی نے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے اپنی ملاقات کے بارے میں انٹرویو کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک مرحلہ پر ڈاکٹر کلام نے ہندوستانیوں اور ہندوستانی نژاد باشندوں پر زور دیا تھا کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کی بلندیوں پر پہنچ جائیں لیکن کبھی اپنی ہندوستانیت کو ترک نہ کریں، اس سے محروم نہ ہوں کیونکہ ہندوسانیت کا مطلب ہی ان کی تہذیب و شرافت اور عجز و انکساری ہے۔ڈاکٹر ماجد الدین قاضی کی زندگی میں 15 نومبر 1974 خصوصی اہمیت کا حامل دن رہے گا۔ یہ وہی دن تھا جب انھیں ایک مکتوب موصول ہوا، اور جس مکتوب نے اس ہندوستانی نژاد سعودی ماہر امراض قلب کے ایک شاندار و ممتاز کیریئر کا آغاز کیا۔یہ مکتوب دراصل سعودی عرب کے وزیر صحت ڈاکٹر عبدالعزیز خویشر کی جانب سے بھیجا گیا تھا جس میں انھوں نے لکھا تھا :
’’ مجھے آپ کو اس بات سے آگاہ کرتے ہوئے بڑی مسرت ہورہی ہے کہ آپ (ڈاکٹر قاضی ) کو امراض قلب کے انسداد ،اس کا پتہ چلانے، ان امراض کے بارے میں شعور بیدار کرنے اور اس کے علاج و معالجہ کیلئے مملکت میں عصری سہولتوں سے آراستہ سہولتوں کے قیام کو یقینی بنانے میرا خصوصی شخصی مشیر منتخب کیا گیا ہے۔‘‘ یہ مکتوب ڈاکٹر قاضی کو ان کے 1969 میں کنیڈا سے سعودی عرب پہنچنے کے 5 سال بعد موصول ہوا، وہ اپنی اہلیہ کپرول اُئن قاضی اور 6 ماہ کے بیٹے کے ساتھ سعودی عرب آئے تھے۔1977 میں انھیں ولیعہد کا شخصی معالج مقرر کیا گیا اور پھر دس برس بعد جب وہ شاہ فہد کے شخصی معالج مقرر کئے گئے اور شاہی کلینکس کے سربراہ بنائے گئے تب انھیں سعودی عرب کے کابینی وزیر کا درجہ دیا گیا۔ خلیج اور ہندوستان میں شہریوں کا یہی خیال رہا ہے کہ ڈاکٹر قاضی ہندوستانی نژاد سعودی شہری ہیں جنہیں مملکت میں کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ان کا شاہ فہد کا شخصی معالج ہونا ہے۔ ڈاکٹر قاضی کو 68 سال کی عمر میں پراواسی بھارتیہ سمان سے نوازا گیا تھا اور شاہی دربار کے خصوصی مشیر برائے طب کی حیثیت سے ان کی میعاد میں توسیع بھی کی گئی تھی۔

ڈاکٹر قاضی اپنی کامیابیوں و رتبہ کیلئے ہمیشہ سجدہ شکر بجالاتے تھے اور یہی کہتے رہے کہ ان کے نصیب میں قدرت نے یہ چیز لکھ دی تھی۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ دنیا میں ہر چیز خوبیوں کی حامل ہوتی ہے ، ہم سب میں ایک قوسِ قزح چھپی ہوئی ہوتی ہے اور سورج کی کرنیں جیسے ہی ایک پانی کے قطرہ پر پڑتی ہیں یا اس پر سے گذرتی ہیں تووہ چمک اُٹھتا ہے اور اللہ عزو حل کی مدد سے قوسِ قزح کی شکل ہماری نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ ڈاکٹر قاضی جس وقت 1969 میں سعودی عرب آئے تھے وہ سعودی آج کے سعودی سے بالکل مختلف تھا۔ اس وقت سعودی عرب ترقی پذیر ملک تھا ، آبادی بھی کم تھی، پُرامن ماحول اس کی شناخت تھا، غرض ایک دلکش مقام تھا۔ ریاض سنٹرل اسپتال میں کوئی عصری طبی آلات نہیں تھے،اسفالٹ روڈ کو النصریہ کارنر تک وسعت نہیں دی گئی تھی۔ کنیڈا میں ڈاکٹر ماجد کو جو سہولتیں و آرام حاصل تھاسعودی عرب میں اُس کا فقدان تھا۔ صحرائی کولرس استعمال کرنا بھی مشکل تھا، ہر طرف صحرائی میدان ہوا کرتے تھے لیکن آج وہاں عصری سہولتوں و آلات سے آراستہ کنگ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال و ریسرچ سنٹر ٹہرا ہوا ہے جو ہزاروں مریضوں کو طبی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ یہ دراصل سعودی حکمرانوں کی دانشمندانہ بصیرت افروز قیادت و پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر قاضی اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنی اہلیہ کو دیتے ہیں، انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ’’ اہلیہ نے ان کی زندگی میںاہم کردار ادا کیا اور ہنوز انتہائی اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ وہ مجھے آگے ڈھکیلتی (بڑھاتی ) رہتی ہیں، بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان کا بہت دخل ہے۔‘‘ڈاکٹر قاضی کی اہلیہ محترمہ ایک سند یافتہ آرٹ انسٹرکٹر ہیں جو مصوری میں مہارت رکھتی ہیں۔ چند سال قبل وہ ریاض میں ڈیزرٹ ڈیزائنس چلایا کرتی تھیںیہ آرٹ اینڈ کرافٹ کی ایک مشہور شاپ ہوا کرتی تھی۔ڈاکٹر قاضی ماجد کی زندگی کے اہم دنوں میں ایک دن وہ بھی تھا جس میں وہ پراواسی بھارتیہ سمان حاصل کرنے حیدرآباد پہنچے۔ یہ شہر ان کی یادوں اور خوابوں کا شہر ہے۔ڈاکٹر قاضی ماجد اپنے بھائی قاضی سلیم سے کافی متاثر تھے اور اپنے بھائی سے ان میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوتا۔ چونکہ وہ ایک بہت بڑے شاعر تھے اس لئے ڈاکٹر قاضی نے بچپن سے ہی ان کی نقل کرکے ان کی تقلید کرتے۔ اس طرح ڈاکٹر ماجد بھی بچوں کی نظمیں لکھنے لگے جن میں سے کئی نظمیں بچوں کے جریدوں جیسے ’ پھلواری‘ اور ’ کھلونا ‘ میں بھی شائع ہوئیں۔ڈاکٹر قاضی ماجد خود بتاتے ہیں کہ صوبائی میڈل اسکول مقابلوں میں ان کی نظم کو منتخب کیا گیا اور گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ اس وقت ڈاکٹر قاضی کی عمر صرف 11 برس تھی۔ اسے دہلی سے شائع ہونے والی بچوں کی ایک میگزین میں شائع کیا گیا ۔ وہ نئے قائم کردہ اورنگ آباد ریڈیو اسٹیشن کے بچوں کے پروگرامس میں بھی حصہ لیتے رہے جس کیلئے انھیں بعض مرتبہ 10 روپئے معاوضہ ملا کرتا تھا۔٭