ڈاکٹر کفیل احمد خان کیخلاف حکومت ہی سوالات کے دائرے میں اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں

   

…منوج سنگھ …
گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج کے آکسیجن اسکینڈل میں ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف کی جا رہی تحقیقات کی رپورٹ ملنے کے بعد یوگی حکومت اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔ اس کے علاوہ بہرائچ معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف تحقیقات کے لئے عہدیدار مقرر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ڈاکٹرکفیل پر عائد الزامات کی تیزی سے تحقیقات کروانے میں خود حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اتر پردیش میں گورکھپور واقع بی آر ڈی میڈیکل کالج کے آکسیجن تنازعہ میں ڈاکٹر کفیل احمد خان کو گھیرنے کے کوشش میں ریاستی حکومت خود الجھتی نظر آ رہی ہے۔ ایک ہفتے کے اندر شعبہ جاتی تحقیقات پر حکومت کا بیان جاری کرنا اورپھر چیف سکریٹری (طب) کا پریس کانفرنس کرنا، ان سب سے کئی اور سوال پیدا ہوگئے ہیں۔ آکسیجن اسکینڈل کی شعبہ جاتی تحقیقات میں جن نئے دستاویزات کے پیش نظردوبارہ تحقیقات کروانے کی بات کہی گئی ہے، وہ دستاویز حکومت کے سامنے نئے سوالات کو جنم دے رہے ہیں، جس کا جواب دینا اس کے لئے کافی مشکل ہوگا۔ حکومت کو یہ بھی جواب دینا ہوگا کہ بہرائچ معاملے میں ڈاکٹر کفیل کو دس مہینے بعد جولائی 2019 میں کیوں معطل کیا گیا اور اتنے وقت بعد کیوں شعبہ جاتی کاروائی شروع کی گئی؟ اس تاخیر کی وجہ کیاہے؟ 27 ستمبر کو حکومت کی طرف سے جاری کردہ پانچ صفحات کا بیان اور تین اکتوبر کو چیف سکریٹری رجنیش دوبے کا پریس کانفرنس کا لب ولباب یہ ہے کہ آکسیجن اسکینڈل میں بی آر ڈی میڈیکل کالج کے ترجمان ڈاکٹر کفیل احمد خان کو بادی النظر میں قصوروار پائے جانے کی وجہ سے معطل کیا گیا تھا۔اس کے بعد ان کے خلاف شعبہ جاتی کارروائی شروع کی گئی۔ ان پر چارالزامات لگائے گئے، جن میں سے دو پرائیویٹ پریکٹس اور دو آکسیجن اسکینڈل سے متعلق تھے۔ جانچ افسر چیف سکریٹری، اسٹامپ اور رجسٹریشن، پیڈیالوجی اور مائننگ ہمانشو کمار نے اپنی تحقیقات میں پرائیویٹ پریکٹس کے دونوں الزام کو صحیح پایا، لیکن آکسیجن اسکینڈل سے متعلق دونوں الزام (الزام نمبر 3 اور 4)صحیح نہیں پائے گئے۔ اب حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ جو دو الزام صحیح پائے گئے ہیں اس پر اصول کے مطابق ڈاکٹر کفیل سے پھر سے جواب لیا جانا تھا، جو اس کو مل گیا ہے۔ اس پر فیصلہ ابھی زیر التوا ہے۔جو دو الزام جانچ افسر نے صحیح نہیں پائے، وہ حکومت کو منظور نہیں ہے۔ان الزامات کے متعلق حکومت نے بتایا ہے کہ اس کو نئے حقائق ملے ہیں، جس پر آگے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔اس کے علاوہ بہرائچ ضلع ہاسپٹل معاملے میں ڈاکٹر کفیل کے خلاف معطلی کی کارروائی کی گئی ہے اور ان کے خلاف شعبہ جاتی تحقیقات شروع کی گئی ہے۔ شعبہ جاتی تحقیقات میں ان پر تین الزام لگائے گئے ہیں۔اس طرح اترپردیش حکومت کے مطابق ڈاکٹر کفیل آکسیجن اسکینڈل میں معطل رہتے ہوئے بہرائچ ضلع ہاسپٹل معاملے میں دوبارہ معطل کئے گئے ہیں اور دونوں معاملوں کے جملہ سات الزامات میں ان کے خلاف شعبہ جاتی کارروائی چل رہی ہے۔ حکومت کی سطح پر اس میں کوئی آخری فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ اب سب سے پہلے آکسیجن اسکینڈل پر آتے ہیں۔ اس معاملے میں شعبہ جاتی کارروائی میں چار الزامات تھے جس کی تحقیقات ہوئی۔الزام نمبر ایک اور دو سرکاری خدمات میں سینئر ریزیڈنٹ اور باقاعدہ ترجمان رہتے ہوئے پرائیویٹ پریکٹس کرنے اورخانگی نرسنگ ہوم چلانے کا تھا۔ ان دونوں الزامات کو تحقیقاتی عہدیدار نے صحیح مانا ہے لیکن انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایک اہم تبصرہ کیا ہے، 08 اگست 2016 کے بعد کفیل کے ذریعے پرائیویٹ پریکٹس کئے جانے کا کوئی ثبوت دستاویزات میں دستیاب نہیں ہے۔ یہ تبصرہ ڈاکٹر کفیل کے حق میں جاتا ہے کیونکہ آکسیجن اسکینڈل 10 اگست 2017 کو ہوا تھا اور اس وقت ڈاکٹر کفیل کا پرائیویٹ پریکٹس کرنا ثابت نہیں ہوتا ہے۔ جن دو الزامات (الزام نمبر3 اور 4)کو جانچ افسر نے طے نہیں پایا ہے، وہ آکسیجن اسکینڈل کے متعلق ہیں۔ اس میں ڈاکٹر کفیل پر الزام لگایا گیا ہے کہ بی آر ڈی میڈیکل کالج کے شعبہ اطفال میں بچوں کی ناگہانی موت کے معاملے کے وقت وہ موجود تھے اور وہ 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے نوڈل انچارج تھے۔ انہوں نے لائف سیور آکسیجن کی کمی جیسی اہم بات فوراً اعلیٰ حکام سے نہیں بتائی، جو ان کی میڈیکل غیرذمہ داری کا مظہر ہے۔ اس الزام میں یہ بھی جوڑا گیا تھا کہ ‘ ڈاکٹر کفیل نے اس وقت کے پرنسپل ڈاکٹر راجیو مشر کے ساتھ مل کر سازش کے تحت سرکاری اصولوں کی خلاف ورزی کی۔ تحقیقاتی عہدیدار ہمانشو کمار نے الزام نمبر تین اور چار کو خارج کرتے ہوئے اپنے تبصرہ میں لکھا ہے کہ الزام نمبر 3 کے تعلق سے محکمے کے ذریعے پیش کئے گئے ثبوت کمزور اور غیر مدلل ہیں۔ اس تعلق سے ملزم ڈاکٹر کے ذریعے دیا گیا جواب اطمینان بخش معلوم ہوتا ہے۔ الزام نمبر چار کی تصدیق میں دئے گئے ثبوت ناکافی اور غیر مدلل ہیں۔ چیف سکریٹری رجنیش دوبے نے تین اکتوبر کو پریس کانفرنس میں کہا کہ الزام نمبر 3 اور 4 کے بارے میں ڈاکٹر کفیل نے تحقیقاتی عہدیدار کودستاویز دستیاب کروایا تھا کہ واقعہ کے وقت 100 بیڈ اے ای ایس کے انچارج وہ نہیں ڈاکٹر بھوپیندر شرما تھے۔ اس دستاویز کی بنیاد پر تحقیقات عہدیدار نے ڈاکٹر کفیل پر الزام صحیح نہیں پایا۔ ان کے مطابق، حکومت کے علم میں کچھ دستاویز آئے ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سال 2016 اور 2017 میں ڈاکٹر کفیل احمد خان 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے نوڈل افسر تھے۔ ان کے ذریعے نوڈل افسر کے طورپرخط وکتابت کئے گئے ہیں۔ان کو نوڈل افسر کے طور پر خریداری کمیٹی کا رکن بھی بنایا گیا تھا۔ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے الزام نمبر 3 اور 4 میں آگے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ یہاں اہم ہے کہ 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے انچارج اور نوڈل افسر کے الگ الگ عہدے ہیں، نہ کہ ایک۔ 100 بیڈ اے ای ایس کے نوڈل افسر کا کوئی عہدہ ہی نہیں ہے، جیسا کہ چیف سکریٹری رجنیش دوبے نے پریس کانفرنس میں کہا ہے۔ ڈاکٹر کفیل خان کا دعویٰ ہے کہ وہ آکسیجن اسکینڈل کے وقت نوڈل افسر این ایچ ایم تھے، نہ کہ 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے انچارج یا 100 بیڈ وارڈ کے نوڈل افسر۔ ڈاکٹر کفیل خان نے اپنے دعویٰ کی حمایت میں ہمانشو کمار کوآر ٹی آئی سے حاصل ثبوت مہیا کروایا تھا۔ اس آر ٹی آئی میں بی آر ڈی میڈیکل کالج کے ذریعے یہ تفصیلات فراہم کی گئیں کہ 11 مئی 2016 سے ڈاکٹر بھوپیندر شرما، اسوسی ایٹ پروفیسرکو اے ای ایس اور 100 نمبر وارڈ کا انچارج افسر بنایا گیا ہے۔ پولیس چارج شیٹ میں ڈاکٹر کفیل خان کو این ایچ ایم کا نوڈل افسر اور100 بیڈ اے ایس ای وارڈ کا انچارج بتایا گیا ہے۔چارج شیٹ میں بی آر ڈی میڈیکل کالج کے شعبہ اطفال کی صدر ڈاکٹر مہیمامتل کا بیان درج ہے۔بیان کے مطابق، پرنسپل ڈاکٹر راجیو مشر نے 29 دسمبر 2016 کو دفتری حکم جاری کرکے ڈاکٹر کفیل خان کو این ایچ ایم میڈیکل کالج کا انچارج بنایا۔ محکمہ میں سینئرڈاکٹر ہونے کے باوجود جونیئر ڈاکٹر کفیل کو نوڈل افسر بنایا گیا۔ ان کو 20 ہزار روپے تک کا خریداری کا حق دیا گیا۔ اس بیان میں حالانکہ انہوں نے یہ نکتہ بھی شامل کیا ہے کہ وہ (ڈاکٹر کفیل) این ایچ ایم کے تحت 100 بیڈ اے ای ایس وارڈ کے بھی انچارج تھے۔ ڈائریکٹر جنرل میڈیکل ایجوکیشن ڈاکٹر کے کے گپتا نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں ایک مقام پر ڈاکٹر ستیش کمار کو 100 نمبر وارڈ کاانچارج افسر بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ذریعے رکھ رکھاؤ کی مناسب کارروائی نہیں کی گئی۔اس رپورٹ پر ہی ڈاکٹر کفیل، ڈاکٹر راجیو مشر، ڈاکٹر ستیش کمار، ڈاکٹرپْرنیما شکل سمیت آٹھ افراد کو معطل کیا گیا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔ ڈاکٹر کفیل نے کہا کہ این ایچ ایم کے نوڈل افسر کے بطور ان کا کام این ایچ ایم کے تحت انسانی وسائل کا انتظام وانصرام تھا۔ پولیس چارج شیٹ، آر ٹی آئی سے حاصل جواب اور ڈاکٹر کے کے گپتا کی تحقیقاتی رپورٹ ڈاکٹر کفیل کی ذمہ داری کے بارے میں الگ الگ دعوے کرتے ہیں۔
بحر حال شعبہ جاتی تحقیقاتی رپورٹ نے آکسیجن اسکینڈل کے متعلق حکومت کے دعووں پر ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ رپورٹ سے آکسیجن اسکینڈل کی سرکاری کہانی کی بنائی پوری طرح سے ادھڑگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ کے عام ہونے کے بعدحکومت کو بار بار صفائی دینے میڈیا کے سامنے آنا پڑ رہا ہے۔٭