ڈریگن نے دی ہاتھی کو رقص کی دعوت

   

پی چدمبرم
پچھلے ہفتہ ہمیں ہندوستان کی جغرافیہ کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ ایسے ناموں سے بھی ہم واقف ہوئے جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے تھے۔ جیسے وادی گلوان، پینگانگ ٹسو (جھیل) اور بوگرا، یہ تمام کے تمام لداخ میں واقع ہیں لیکن ان کے ذکر ہمارے گھروں اور کمروں میں بھی داخل ہوئے ہیں۔

یہ دراندازی ہے
ہندوستان ۔ چین کے تعلقات میں جو تازہ ترین تبدیلیاں آئی ہیں وہ دراصل پینگانگ ٹیسو میں 5 مئی 2020 کو ہندوستانی اور چینی سپاہیوں کے درمیان پیش آئے تصادم کے واقعات اور اس کے بعد رونما ہوئے واقعات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگرچہ حکومت نے کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ چینی سپاہی مذکورہ واقعات کے بعد ہندوستانی علاقہ میں داخل ہوگئے ہیں۔ حسب ذیل حقائق سے کسی بھی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا۔
٭ چینی فورسیس کثیر تعداد میں لداخ وادیٔ گلوان، ہاٹ اسپرنگس، پینگانگ ٹیسو اور گوگرا کے علاوہ سکم کے ناکولا جیسے پوائنٹس میں آگے بڑھے ہیں۔ یہ تمام مقامات ہندوستانی علاقوں میں شامل ہیں۔
٭ لداخ میں وادیٔ گلوان اور سکم میں ناکولا کے ماضی میں کسی بھی طرح متنازعہ اور حساس علاقوں کی فہرست میں نام شامل نہیں تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ چین نے جان بوجھ کر متنازعہ علاقوں کو وسعت دی ہے۔
٭ چین نے اپنی سرحد کی جانب بڑے پیمانے پر سپاہیوں کی تعیناتی عمل میں لائی ہے اور آلات حربی یعنی جنگی ساز و سامان بھی وہاں پہنچادیا ہے، جبکہ ہندوستان بھی چین کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے اپنی سرحد کی طرف فورسیس کی تعیناتی عمل میں لارہا ہے۔
٭ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مذاکرات دونوں ملکوں کے فوجی جرنیلوں کی قیادت میں ہوئے ورنہ اکثر یہی دیکھا گیا کہ ہندوستان اور چین کے درمیان مذاکرات کی امور خارجہ کے دو سفارتکار یا خصوصی نمائندے قیادت کیا کرتے تھے۔
مکمل جنگ نہیں
یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ چین یا ہندوستان فی الوقت سرحدی تنازعہ کو وسعت دینے یا بڑھانے کے خواہاں ہوں گے۔ یہ تنازعہ اس وقت کا ہے جب میک موہن لائن کھینچی گئی تھی اور اسی کے نتیجہ میں 1962 میں دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ یہ بھی سچ ہے کہ وقفہ وقفہ سے ہندوستان اور چین کے سپاہیوں کے درمیان تصادم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن کبھی ایسے وقت تصادم کے واقعات پیش نہیں آئے جب دونوں ملکوں کو کئی ایک غیر فوجی چیالنجس کا سامنا ہے۔ ہندوستان اور چین دونوں ملک ہنوز کورونا وائرس کی عالمی وباء کے بحران سے نمٹ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کو 2020-21 میں معاشی انحطاط کے شکار ہونے کا خوف ہے اور ایسے میں یہ دونوں ملک امن، استحکام اور متوازن باہمی تعلقات کے ذریعہ یقینی بنائے گئے پرسکون حالات کو خطرہ میں ڈالنا نہیں چاہیں گے۔ دونوں جانتے ہیں کہ ان ملکوں نے لاکھ اختلافات کے باوجود امن و استحکام کے ذریعہ تعلقات میں توازن برقرار رکھا ہے۔
اس کے علاوہ چین کو اس بات کا کامل یقین ہوسکتا ہے کہ اس کی فوج 1962 کے بہ نسبت 2020 میں کافی مضبوط ہوئی ہے۔ چین یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ ہندوستان بھی 1962 کی بہ نسبت دفاعی طور پر 2020 میں بہت زیادہ مضبوط ہے۔ واضح رہے کہ 1962 میں ہندوستان اور چین کے درمیان جو جنگ ہوئی اب اس طرح نہیں ہوگا بلکہ 2020 میں دونوں ملکوں میں سے کوئی بھی واضح فاتح نہیں ہوگا۔ چینی ماہرین اس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ حالیہ عرصہ کے دوران چینی اقدامات کے پیچھے کچھ بھی وجوہات کارفرما ہوں اس کے باوجود وہ ہندوستان کے ساتھ مکمل جنگ شروع نہیں کرسکتا۔

تجزیہ نگاروں کے لئے یہ واضح ہوچکا ہے کہ ووہان 2018 اور مہابلی پورم 2019 میں وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر ژی جن پنگ نے گرم جوشانہ شخصی تعلقات شیر نہیں کئے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسٹر ژی جن پنگ واحد لیڈر ہیں جن کا نریندر مودی نے انتہائی گرم جوشانہ انداز میں خیرمقدم نہیں کیا ان سے بے پناہ محبت کے ساتھ بغلگیر نہیں ہوئے حالانکہ 6 برسوں کے دوران دونوں قائدین کی کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ہندوستان کے لئے ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ اس نے مالدیپ جیسے ملک کا بھروسہ جیتا لیکن وہاں پر بھی چین نے ہندوستان کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ہندوستان نے جنوبی بحرہ چین پر چین کے دعوے کو مسترد کیا اور اس کا یہی موقف رہا کہ یہ عالمی آبی علاقہ ہے جس میں تمام ممالک کو آزادی سے سرگرمیاں انجام دینا چاہئے۔ اس معاملہ میں چین نے ہندوستان کو اسی طرح نظرانداز کردیا جس طرح اس کے دعوے کو چیالنج کرنے والے ممالک بشمول امریکہ کو نظرانداز کردیا تھا۔
دیپ سانگ یا ڈوکلانگ ؟
موجودہ تنازعہ کا پرامن حل کسے سمجھا جائے گا؟ ہندوستان چاہتا ہے کہ 5 مئی سے پہلے جو موقف تھا وہ جوں کا توں برقرار رہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک اور دیپ سانگ تحریک (2013) ہوگی۔ اس نے جان بوجھ کر ڈوکلام (2017) پر دیپ سانگ کا انتخاب کیا تھا۔ اس کی وجوہات ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ اچھی طرح جانتا ہے۔ چین کا سرکاری موقف یہی ہے کہ صورتحال مستحکم اور قابو میں ہے جو میرے خیال میں جوں کے توں موقف کے برعکس ہے۔ میرے یہ الفاظ یاد رکھئے کہ ہاتھی اور ڈریگن، گلوان، ہاٹ اسپرنگ پینگانگ، ٹیسو میں ایک دوسرے کو گھور رہے ہیں۔ بات چیت کے بعد ہندوستان نے باہمی طور پر فورسیس کو ہٹانے کا اشارہ دیا ہے لیکن فوج کے ریٹائرڈ جرنیلس اس طرح کے اشارے سے اتفاق نہیں کرتے۔