ڈیئر انتہا پسند عناصر ! آپ کیلئے کچھ عرض ہے

   

برندا کرت
گزشتہ نماز ِ جمعہ کے بعد رانچی، ہوڑہ اور دیگر مقامات پر احتجاج کے دوران جو تشدد پھوٹ پڑا ، اس پر قابو تو پالیا گیا۔ تشدد کے ان بدبختانہ واقعات میں کم از کم تین اموات ہوئیں، درجنوں احتجاجی اور چند پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ یہ احتجاجی مظاہرے ان سابق بی جے پی ترجمانوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کئے گئے جنہوں نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی۔ بی جے پی ترجمانوں نے پیغمبر اسلام کی شان میں اہانت آمیز ریمارکس کئے۔ اس پر مسلمانوں کا احتجاج جائز تھا جس سے مسلم برادری میں پائے جانے والے غم و غصہ کا اظہار ہوتا ہے۔ اگرچہ تشدد کے واقعات مختلف مقامات پر ہوئے لیکن یہ اکثریتی فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ بی جے پی کے دو ترجمان (نپور شرما اور نوین کمار جندال) نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی اور اس واقعہ کو پیش آئے دو ہفتے گذر چکے ہیں۔ ان کی گرفتاریاں ابھی تک عمل میں نہیں آئیں۔ اس کے برخلاف دہلی پولیس نے جو راست طور پر مرکزی وزارت ِداخلہ کے تحت کام کرتی ہے، 32 افراد کے خلاف 2 ایف آئی آر درج کی ہیں، جن کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ نپور شرما اور نوین کمار جندال کے خلاف بلاتاخیر کارروائی کرے۔ ساتھ ہی صبا نقوی اور دیگر بے قصور افراد کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اسے واپس لے۔ بی جے پی قائدین ، ہندوستانی مسلمانوں کو حاصل یکساں شہرت کے حقوق چھیننے کے خواہاں ہیں اور اس ضمن میں وہ مسلسل اشتعال انگیز و خطرناک بیانات دیتے رہتے ہیں۔ ان کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں سے ان کے شہری حقوق چھین لئے جائیں۔ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بناکر رکھ دیا جائے)۔ بی جے پی قائدین کے ان اشتعال انگیز و منافرت پر مبنی بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں ریاستی حکومت اور حکمراں جماعت کی قیادت کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ ہندوستان ہے اور ہندوستان ہندوؤں کا ہے اور اس سرزمین پر صرف سناتن دھرم ہی رہے گا، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اسے زندہ رکھیں اور ہم ایسا کریں گے‘‘۔
نہیں! سادھوی پرگیہ ٹھاکر! ہندوستان کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کا نہیں ہے، ہندوستان اُن تمام شہریوں کا ہے۔ یہ ہم سب کا ہے۔ ہم سب ہندوستانیوں کا ہے جیسے کہ ہمارے دستور میں کہا گیا ہے اور دستور نے بلالحاظ مذہب و ملت، رنگ ونسل ذات پات تمام ہندوستانیوں کو یکساں حقوق عطا کئے ہیں۔
مس ٹھاکر! آپ یہ کہتی ہیں کہ سناتن دھرم خطرہ میں ہے، محاصرہ میں ہے، ایسا نہیں ہے۔ سناتن دھرم محاصرہ یا خطرہ میں نہیں ہے۔ اسے زندہ رہنے کیلئے آپ یا آپ جیسے خیالات رکھنے والوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ کروڑوں امن پسند ہندوؤں کی تکثیری عقائد ، طریقوں اور روایات میں رہتا ہے جو اپنی پسند کے دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔ نہ کہ اس درجہ بندی کے مطابق جو آپ اور آپ جیسی سوچ و فکر رکھنے والوں کا نظریہ بتاتا ہے اور جسے آپ سارے ہندوستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، یہ دراصل آپ کا ساورکر کے پیش کردہ ’’ہندوؤں کی عسکریت پسندی‘‘ اور تمام سیاست کو ہندو بنانے کے نظریہ کا تضاد ہے جو حقیقت میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی سب سے بڑی توہین ہے۔ جب بدمعاش آپ جیسے لیڈروں سے متاثر ہوکر غریب مسلمانوں پر بزدلانہ حملے کرتے ہیں جب یہ غریب مسلم ٹھیلہ بنڈی والوں، سڑکوں کے کنارے کاروبار کرنے والے مسلمانوں، فقیروں اور گندی بستیوں کے مسلم مکینوں پر حملے کرتے ہیں، ان سے جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہیں۔ جنگوں میں جس طرح فاتح قیدیوں سے سلوک کرتے ہیں، اسی طرح کا ان غریب مسلمانوں سے سلوک روا رکھتے ہیں۔ تب دیوی دیوتاؤں کی توہین ہوتی ہے۔ یہ سب ہر روز ایک سیاسی آلہ کار کے طور پر کیا جاتا ہے اور مذہبی ہندوستان کیلئے دستور مخالف مقصد کے حصول کی خاطر آپ لوگ ایسا کرتے ہیں۔
آپ اور آپ جیسے لوگ ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کے نفرت انگیز نعرے بلند کرتے ہیں کیونکہ آپ لوگ ایک مذہبی حکومت کو ماننے والے معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں۔ آپ ان لوگوں کی خواہشات و اُمنگوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اپنے وطن عزیز ’’ہندوستان‘‘ کی آزادی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا جو کسی حد تک ہمارے آئین کے ذریعہ محفوظ ہے اور آپ کے نظریاتی تشخص ہندوستان کی جنگ آزادی کے دوران جو کچھ کرنے میں ناکام رہے، وہ ہندوستان کو منو سمرتی پر مبنی ایک قوم میں تبدیل کرنے کے خواہاں تھے اور آج بھی آپ جیسے لوگ یہی چاہتے ہیں۔ براہ کرم کسی ایک مخصوص مذہب کو بدنام کرنے ، اس کے خلاف نفرت پھیلانے کی بجائے اپنے عظیم ملک کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ یہ سمجھنے کیلئے ستی، بچپن کی شادی، ظلم و جبر اور بیواؤں کے سماجی اخراج کو سمجھنے کیلئے ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ جہاں تک کمیونسٹوں کا سوال ہے، وہ مذہبی عقائد کے انتخاب یا پسند کی اس آزادی کا بھرپور احترام کرتے ہیں جس کی طمانیت ہمارے دستور میں دی گئی ہے، جس سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور ان کی قبیل کے لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہے، یا وہ اس سے بہت دُور اور ناواقف ہیں۔ کمیونسٹوں نے ہمیشہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے میں یقین رکھا ہے اور ان کا یہ ایقان بہت مضبوط ہے۔ کمیونسٹوں کا یہ فخریہ ریکارڈ رہا ہے کہ انہوں نے ہر قسم کی انتہا پسندانہ سیاست کی مخالفت کی۔ آزادیٔ اظہار ِخیال کے قانون اور آئینی حقوق کے چہارسو کے اندرون کمیونسٹس یقینی طور پر ہر ایک سائنسی طریقہ کار کو فروغ دیتے ہیں اور ذات پات جیسے سماجی اداروں پر تنقید کرتے ہیں ، اسی وجہ سے کمیونسٹ مذہب کو سیاست سے الگ رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ کیرلا میں پی ایف آئی اور ایس ڈی پی آئی جیسی تنظیمیں کمیونسٹوں کے خلاف زہر اگلتی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح کی سیاست کا برانڈ پیش کررہے ہیں، اس کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا جو صرف اور صرف اکثریتی فرقہ پرستی کو فروغ دے گی، اسے آگے بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوگی۔ یہ اکثریتی سیاست اور اکثریتی فرقہ پرستی سنگھ پریوار اپناتا ہے، اس پر عمل کرتا ہے جس سے سکیولر اُصولوں و اقدار کو نقصان پہنچتا ہے۔
ہندوستان کی آزادی کے 75 ویں سال میں ایک سکیولر ملک کی طاقت اور متنوع تہذیب کے حامل لوگوں کے نامیاتی اتحاد کو ظاہر کرنے کی بجائے زندگی کے تمام شعبوں میں فروغ پا رہے اسلاموفوبیا اور تعصب کے نظریے و تقاضوں کی ہندوستان بھاری قیمت چکا رہا ہے۔ آج کے حکمرانوں کے ذریعہ تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے اور ایک نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ آج نپور شرما کو سرکاری طور پر انتہا پسند عنصر قرار دیا گیا اور کل پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھی انتہا پسند عناصر میں شامل کردیا جائے گا (سرکاری سطح پر)۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جن عناصر کو حکومت نے انتہا پسند عناصر قرار دیا ہے۔ دو ہفتے گذر چکے ہیں، ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی، جس سے عالمی سطح پر کیا ہندوستان کی ساکھ متاثر نہیں ہوگی۔ یہ سب سے اہم سوال ہے۔