کانگریس ‘ راجستھان پر توجہ ضروری

   

اک شمع سرِ بزم جلا رکھی ہے ہم نے
پروانے تو خود آئیں گے دیتے ہو صدا کیوں
کانگریس کو اکثر و بیشتر اپنی مختلف ریاستی یونٹوں میں اختلافات اور انتشار کی کیفیت کا سامنا رہتا ہے ۔ خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں کانگریس کو اقتدار حاصل رہتا ہے اور جہاں ایک سے زیادہ مقبولیت رکھنے والے قائدین موجود ہوں وہاں پارٹی کیلئے اختلافات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ ملک کی تقریبا ہر ریاست میں مقامی قیادت کو ابھارنا جہاں کانگریس کیلئے قومی سطح کی سیاست میں اہم مقام حاصل کرنے ضروری ہے وہیں داخلی اختلافات کو سنبھالنا اور ان کو کم سے کم کرنا پارٹی کیلئے ہمیشہ مشکل مرحلہ رہا ہے ۔ اسی طرح کی صورتحال پارٹی کیلئے راجستھان میں ہے ۔ راجستھان میں گذشتہ اسمبلی انتخابات میں جس وقت کانگریس نے اقتدار حاصل کیا تھا اس کے فوری بعد سے داخلی رسہ کشی شروع ہوچکی ہے ۔ سچن پائلٹ نے پردیش کانگریس کی صدارت کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو کامیابی دلائی تھی اور اقتدار پر واپسی کو یقینی بنایا تھا ۔ انہیں امید تھی کہ انہیں اس محنت کا صلہ چیف منسٹر کی کرسی کی صورت میں دیا جائیگا ۔ تاہم کانگریس نے سینئر قائدین کے دباؤ کی وجہ سے سچن پائلٹ کی بجائے اشوک گہلوٹ ہی کو چیف منسٹر بنایا ۔ سچن پائلٹ کو ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا تھا ۔ اس وقت سے ہی پارٹی میں داخلی خلفشار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ابتدائی چند ماہ تو سچن پائلٹ نے خاموشی اختیار کی لیکن بعد میں ایسا لگتا ہے کہ وہ جلد بازی کا شکار ہیں اور چیف منسٹر بننا چاہتے ہیں۔ اشوک گہلوٹ کسی بھی قیمت پر یہ عہدہ چھوڑنے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے کانگریس کی صدارت کو ترک کردیا تھا ۔ اب صورتحال اس حد تک بگڑ گئی ہے کہ سچن پائلٹ اور گہلوٹ کے حامیوں کے درمیان کھلے عام رسہ کشی ہونے لگی ہے ۔ اشوک گہلوٹ بھی مسلسل پائلٹ پر تنقیدیں کر رہے ہیں اور پائلٹ دبے دبے الفاظ میں ان کا جواب بھی دے رہے ہیں۔ یہ صورتحال کانگریس کیلئے کسی بھی حال میں اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ خاص طور پر ملک کے اور کانگریس کے موجودہ حالات میں اس صورتحال کو جلد بہتر بنانا ہوگا ۔ حالات کو بہتر بنانے میں جتنے زیادہ تاخیر ہوگی پارٹی کیلئے اتنی ہی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
کانگریس کو کرناٹک اسمبلی انتخابات کی کامیابی کے ذریعہ ایک نئی جان ملی ہے ۔ ایک طرح سے سیاسی آکسیجن اسے حاصل ہوئی ہے ۔یہ کامیابی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ضرور ہے لیکن صرف اسی کو پارٹی کے مستقبل کے امکانات سے مربوط نہیں کیا جاسکتا ۔ پارٹی کیلئے بہت احتیاط اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ کرناٹک کی کامیابی کو ضرورت سے زیادہ ذہنوں پر چڑھا لیا جائے اور تن آسانی سے کام لیا جائے تو الٹا سفر شروع ہونا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ ایسے میں راجستھان کی داخلی صورتحال کو بہتر بنانے اور اختلافات ختم کرتے ہوئے سبھی گوشوں اور قائدین میں اتحاد پیدا کرنے پر خاص توجہ کی اور منظم حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ ریاست میں کانگریس نے اشوک گہلوٹ اور سچن پائلٹ دونوں ہی کو اثاثہ قرار دیا تھا ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ہی کے رول کا تعین کیا جائے ۔ دونوں ہی کی ذمہ داریوں اور ان کے موقف کو واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں کو روکنا چاہئے ۔ ایک دوسرے کے حامیوں میں ٹکراؤ کی کیفیت کو ٹالنے کی ضرورت ہے ۔ ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے محض چند ماہ با قی رہ گئے ہیں۔ ایسے میں جتنا جلدی اختلافات کو ختم کیا جائے اور دونوں ہی قائدین میں اتفاق پیدا کیا جائے اور ان کے رول کا تعین نہ کیا جائے اتنا ہی پارٹی کے امکانات بہتر ہوسکتے ہیں۔ اگر ان اختلافات کو یونہی بڑھنے کا موقع دیا جاتا رہا تو یہ کانگریس کیلئے اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ کانگریس کی کرناٹک کامیابی سے ملک بھر میں پارٹی کیڈر میں حوصلے بلند کئے جاسکتے ہیں اور انہیں بی جے پی سے مقابلہ کیلئے تیار کیا جاسکتا ہے اس طرح کے اختلافات ختم کئے جانے ضروری ہیں۔ کرناٹک کے بعد ملک کی کچھ علاقائی اپوزیشن جماعتیں بھی کانگریس سے قریب آنے رضامندی ظاہر کر رہی ہیںایسے میں کانگریس کو اپنی کامیابیوں کے سلسلہ کو دراز کرنے پر توجہ دینا چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب داخلی اختلافات اور خلفشار کو ختم کیا جائے ۔ جو موقع کرناٹک سے کانگریس کے ہاتھ آسکتا ہے اس کو گنوایا نہیں جانا چاہئے ورنہ پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے ۔