کانگریس ‘ مستقبل کا راستہ طئے کرلے

   

تین ماہ قبل مدھیہ پردیش حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد اب کانگریس کیلئے راجستھان کو بچانا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ جس طرح مدھیہ پردیش میں کانگریس کے سینئر لیڈر جیوتر آدتیہ سندھیا نے پارٹی سے بغاوت کی اور ارکان اسمبلی کو توڑا اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی اس کے بعد سے ہی اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ بی جے پی کی جانب سے راجستھان میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا جائیگا ۔ تاہم ابھی تک کی جو تصویر ہے اس میں بی جے پی کہیں دکھائی نہیں دیتی بلکہ خود کانگریس پارٹی میں عملا بغاوت کے آثار دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ نوجوان لیڈر سچن پائلٹ نے چیف منسٹر اشوک گہلوٹ کی قیادت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے ۔ راجستھان کی سیاست میں گذشتہ کچھ وقت سے دیکھنے میں آیا تھا کہ چیف منسٹر اشوک گہلوٹ ‘ ڈپٹی چیف منسٹر سچن پائلٹ کا سیاسی قد چھوٹا کرنے کی کوششوں میں زیادہ مصروف ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سچن پائلٹ سے پوچھ تاچھ کے تک احکام جاری کردئے تھے ۔ ایک دن قبل ہی گہلوٹ نے ایک اور بیان دیا ہے کہ بی جے پی ان کی پارٹی کے ارکان اسمبلی کو 10 تا 15 کروڑ روپئے میں خرید نے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہ بیان ان کی سیاسی شاطرانہ چال بھی ہوسکتا ہے کیونکہ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ سچن پائلٹ اب علم بغاوت بلند کرنے والے ہیں۔ اسی لئے پارٹی ہائی کمان کی نظروں میں انہیں نیچا دکھانے کیلئے اس طرح کا بیان دیا گیا ہے ۔ راجستھان میں چاہے بی جے پی حکومت کو زوال کا شکار کرنے کی کوشش کر رہی ہو یا پھر سچن پائلٹ کیلئے ہی اشوک گہلوٹ کے ساتھ کام کرنا مشکل ہوگیا ہو ہر دو صورتوں میں کانگریس کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا راستہ طئے کرلے اور یہ فیصلہ کرلے کہ اسے اب خود کو آگے لیجانا ہے تو کن قائدین کی ضرورت ہے ۔ کانگریس نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں اسمبلی انتخابات جیتنے کے بعد نوجوان قائدین کو عنان اقتدار نہ سونپ کر غلطی کی ہے جس کا خمیازہ لوک سبھا انتخابات میں بھگتنا پڑا ہے ۔ تاخیر سے ہی صحیح کانگریس کو اپنی اس غلطی کا اعتراف بھی کرنا ہوگا ۔
کانگریس نے خود دیکھ لیا ہے کہ اس کے عمر رسیدہ قائدین کس طرح سے پارٹی کیلئے نقصان کا باعث بن رہے ہیں اور ان کے سامنے پارٹی اور ملک کے مفادات سے زیادہ شخصی اقتدار اور کرسی کی اہمیت ہوتی ہے ۔ وہ اپنے کسی ساتھی کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں کانگریس پارٹی کیلئے اب ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اشوک گہلوٹ اور سچن پائلٹ میں کسی ایک کاانتخاب کرلے ۔ کانگریس کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب اسمبلی انتخابات میں وسندھرا راجے سندھیا کی حکومت کو شکست دی گئی تو اس کا سہرا سچن پائلٹ کے سر ہی جاتا ہے ۔ اس سے قبل لوک سبھا کے جو ضمنی انتخابات ہوئے تھے ان تمام میں بھی سچن پائلٹ نے ہی تن تنہا جدوجہد کرتے ہوئے کانگریس کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہوئے اس کے سیاسی امکانات کو بہتر بنایا تھا ۔ کانگریس کو یہ اعتراف بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ اب پارٹی کو اگر آگے لیجانا ہے تو اسے نئے سرے سے شروعات کرنے کی ضرورت ہے اور یہ شروعات نوجوان قائدین کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے ۔ تجربہ کار اور سینئر قائدین کے مشورے یقینی طور پر اہمیت کے حامل ہونگے لیکن ان کو کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی صرف ان سینئر قائدین پر ہی تکیہ کیا جاسکتا ہے ۔ نوجوان قائدین کو میدان میں لا کر ان پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے ان کے جوش و جذبہ سے کام لیا جاسکتا ہے ۔
کل ہی کانگریس پارٹی نے گجرات میں انتہائی کم عمر ہاردک پٹیل کو پردیش کانگریس کا عبوری یا کارگذار صدر مقرر کردیا ہے ۔ یہ کانگریس کیلئے ایک اچھا قدم ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ سینئر قائدین اس کو قبول نہ کریں اور معترض رہیں لیکن کانگریس کو ملک میں اپوزیشن کی ذمہ داری سنبھالنی ہے اور اسے نوجوان خون کی ضرورت ہے ۔ اسے نوجوانوں کو اپنی پارٹی کے قریب کرنا ہے تو اس کیلئے نوجوان قائدین کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہوگی ۔ راہول گاندھی نے جس طرح سچن پائلٹ ‘ جیوتر آدتیہ سندھیا کو پروان چڑھایا تھا اسی حکمت عملی کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہوگی ۔ تجربہ کار قائدین کو بارہا عوام میں پیش کرتے ہوئے کانگریس اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے میںشائد ہی کامیاب ہو پائیگی ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف راجستھان بلکہ قومی سطح پر بھی مستقبل کیلئے اپنے راستہ کا تعین کرلے ۔